”این اے 256 بوگس ووٹ“ نادرا رپورٹ پر اعتراضات کے لئے فریقین کو 3 روز کی مہلت

Oct 09, 2013

 لاہور+ کراچی (خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) الیکشن ٹریبونل نے این اے 256 کراچی میں نادرا رپورٹ پر اعتراض داخل کرنے کےلئے فریقین کو 3دن کی مہلت دیدی اور حلقہ کے ریٹرننگ افسر کو 12اکتوبر کو طلب کر لیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز نادرا نے الیکشن ٹربیونل میں ووٹوں کی تصدیق کے حوالے رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ این اے 256میں 77ہزار بوگس ووٹ ڈالے گئے۔ الیکشن کمشن نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 256 کے حوالے سے نادرا کی تصدیق شدہ رپورٹ جمع ہونے کے بعد الیکشن ٹریبونل 25 اکتوبر تک فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ کمیشن کے ترجمان کے مطابق الیکشن کمیشن کسی بھی حلقہ میں دھاندلی یا جعلی ووٹ ثابت ہونے پر انتخابات کو کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا این اے 256 کے انتخابی نتائج بارے انتخابی ٹربیونل تحریک انصاف کے امیدوار کی انتخابی عذرداری کے حوالے سے جو بھی فیصلہ جاری کریگا اس پر فوری طور پر عمل کیا جائیگا‘ اگر ٹربیونل نے انتخابی نتائج کالعدم قرار دئیے تو این اے 256 میں دوبارہ انتخابات کرائے جائینگے۔ ترجمان نے کہا کہ انتخابی ٹربیونلز کی تشکیل ضرور الیکشن کمیشن نے کی ہے تاہم تمام ٹربیونل آزاد اور خودمختار ہیں اور ان کا کمیشن کیساتھ کوئی تعلق نہیں۔ انتخابی ٹربیونلز میں ہائیکورٹ کا جج بننے کی اہلیت رکھنے والے سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو تعینات کیا گیا ہے اور وہ اپنے طور پر انتخابی عذرداریوں کے مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔ ادھر اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کراچی میں انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق صحیح نہیں ہوئی تو انتخابی عمل کو بوگس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیاہی کا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے نشانات واضح نہ لگ سکے۔ علاوہ ازیں کراچی ائرپورٹ پر صحافیوں سے گفگتو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے پارلمیانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ این اے 256 پر الیکشن ٹربیونل کو بھیجی گئی نادرا رپورٹ میں غلط سیاہی کی وجہ سے 77 ہزار ووٹوں کو ناقابل تصدیق قرار دیا گیا۔ انہیں جعلی نہیں کہا لوگ رپورٹ کو پڑھے بغیر میڈیا پر تبصرے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہر معاملہ الیکشن ٹربیونل میں ہے اور ہم معاملے کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ اگر یہ ووٹ جعلی ہیں تو کس نے ڈلوائے اور کس طرح ڈالے گئے۔ ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے کہا کہ ووٹوں کی تصدیق نہ ہونے اور جعلی ہونے میں فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ این اے 258 اور 256 دونوں کی رپورٹس میں کافی یکسانیت ہے، ایم کیو ایم کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہم ہار ماننے والے نہیں۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں ایم کیو ایم کے مینڈیٹ پر کیوں سولات اٹھائے جا رہے ہیں اور میڈیا کی ساری مہم این 256 پر کیوں ہے۔ فیصل سبزواری کا یہ بھی کہنا تھا بیلٹ پیپر اور اچھی سیاہی فراہم کرنا ایم کیو ایم کی ذمہ داری نہیں تھی ، این اے 256 میں جعلی ووٹوں کا فتوی دیا گیا۔ جماعتوں کے مطالبے پر پولنگ اسٹیشن میں فوج تعینات کی گئی تھی اور ہر پولنگ بوتھ میں فوج کے جوان موجود تھے۔ فیصل سبزواری کا یہ بھی کہنا تھا سیاسی جماعتوں کی شکایت پر انگوٹھوں کی تصدیق کرائی جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منورحسن نے اپنے ردعمل میں کہا کراچی کے حلقہ 256 سے نادرا کے ذریعے ووٹوں کی ری چیکنگ سے جس بڑے پیمانے پر بوگس ووٹنگ کا حیران کن انکشاف نے 90 فیصد مینڈیٹ کے دعویداروں کا پول کھول دیا۔ کراچی اور حیدر آباد سمیت ایم کیو ایم جہاں جہاں سے کامیاب ہوئی اسی طرح جعلی ووٹ ڈالے گئے ہیں جن کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کراچی میں گزشتہ30 سال سے بندوق کی نالی سے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے جبکہ سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیاں سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی زبان کھولنے کو تیار نہیں۔ اپنے ایک بیان میںسید منور حسن نے کہاکہ سابق حکومتیں ایم کیو ایم کی سرپرستی کرتی رہی ہیں۔چیف جسٹس کے حکم کے مطابق نئی حلقہ بندیوں اور فوج کی نگرانی میں انتخابات ہوجاتے تو کراچی کے انتخابی نتائج بالکل مختلف ہوتے۔ مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ جہاں بھی ووٹوں کی دوبارہ تصدیق کرائی جائے گی نتیجہ کراچی جیسا نکلے گا، 60 فیصد حلقوں میں جعلی ووٹ ڈالے گئے ہیں، الیکشن ٹربیونلز نے اب تک پٹیشنز پر فیصلے نہیں کئے۔ وہ کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 256 میں 77 ہزار سے زائد ووٹوں کے تصدیقی عمل کے دوران جعلی نکلنے پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔

مزیدخبریں