جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کا تعلق صوبہ خیبر پی کے سے ہے۔ وہ دیر کے علاقے کے ایک دور افتادہ گائوں میں ایک انتہائی غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ اتنا غریب گھرانہ کہ جو اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ سراج الحق پیدل سفر کر کے کئی کلو میٹر دور ایک پرائمری سکول پہنچے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ان کے جوتے ٹوٹ گئے اور ننگے پائوں حصول تعلیم کی راہ میں زخمی ہو جاتے۔ یہ بیان کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ سراج الحق ایک ایسے سیاست دان ہیں جنہوں نے غربت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے بلکہ غربت کے سارے مصائب کا خود ان کو براہ راست مقابلہ کرنا پڑا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق جس بھی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہیں وہ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے عوام کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ غریبوں کے دکھوں اور تلخ زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ شاید انہیں اپنی مفلسی کا زمانہ یاد آجاتا ہو۔ ایک غریب اور مفلس شخص ہی غریبوں کے مسائل کو سمجھ سکتا ہے۔ جب ایک جاگیر دار اور سرمایہ داری کا پس منظر رکھنے والا سیاست دان پاکستان میں پائی جانے والی غربت اور ناداری کا ذکر کرتا ہے تو اس کا مصنوعی لب و لہجہ عوام کو متاثر نہیں کرتا۔ جن جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور موروثی سیاست دانوں کی پاکستان میں بار بار حکومت رہی ہے اور جن کی حکومتوں میں غریب پہلے سے بھی زیادہ غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان حکمرانوں نے تو خود پاکستان کی غربت میں اضافہ کیا ہے۔سراج الحق ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ جن وڈیروں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے کتوں اور گھوڑوں کو شیمپو سے نہلایا جاتا اور ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں رکھا جاتا ہے ان ظالموں کو فٹ پاتھ پر سو جانے والے غریبوں کے بچوں کا دکھ کیسے محسوس ہو سکتا ہے۔ سراج الحق کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ غریبوں اور امیروں کے موسم بھی مختلف ہے۔ غریب آدمی گرمی اور سردی دونوں موسموں کی سختیاں برداشت کرتا ہے لیکن امیر گھرانوں کے لئے تو پاکستان میں ان کی کوٹھیاں اور دفاتر گرمیوں میں مکمل طور پر ٹھنڈا اور سردیوں میں مکمل طور پر گرم رکھنے کا انتظام موجود ہے۔ غریبوں کے گھروں میں بجلی نہیں صرف بجلی کے بل بھیجے جاتے ہیں۔ اور امیروں کی بجلی کبھی بند نہیں ہوتی اور ان کے بل بھی غریب عوام سے وصول کئے جاتے ہیں۔ غریبوں کے بچے اور بوڑھے والدین علاج کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور امیروں کاعلاج بیرون ملک مہنگے ترین ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ غریب طبقے کے افراد پاکستان میں خودکشیوں پر مجبور ہیں اور ہمارے امیر سیاست دانوں کی پاکستان ہی کی کوئی رقم ڈالروں کی صورت میں بیرونی ممالک بینکوں میں موجود ہے۔ سراج الحق نے بہاولپور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ظاہری طور پر بڑے متحرک نظر آتے ہیں لیکن ان کی ساری بھاگ دوڑ کے باوجود پنجاب کے حالات تبدیل نہیں ہوئے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح یہاں بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ امن عامہ کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ کرپشن بہت زیادہ ہے۔ سرکاری اداروں میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ میں اسمبلیوں کے ممبران بھی حصہ دار ہیں۔ غریب کسانوں اور کھیت مزدوروں کی بدحالی دیکھی نہیں جاتی۔ تعلیم کا ایک نصاب نہیں ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ میں نے شہباز شریف کو بتایا ہے کہ جب تک ہم اللہ اور رسولؐ کے نظام کی طرف نہیں لوٹیں گے اس وقت تک پنجاب اور پورے پاکستان میں ہم بے سکونی اور بے چینی سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست ہے کہ جب تک ہم سودی نظام پر مبنی معاشی پروگرام سے نجات حاصل نہ کی اس وقت تک بدحالی کی نحوست ہمارے ملک پر چھائی رہے گی۔ سراج الحق نے کہا ہے کہ جس شاعر اور حکیم الوقت نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ ان کا یہ فرمان بھی ہے کہ…؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
سراج الحق نے اعلان کیا ہے کہ غریب کسانوں کے تمام مسائل کا ایک ہی حال ہے کہ انگریزوں کی بخشی ہوئی جاگیریں جاگیرداروں سے واپس لے کر دہقانوں اور مزارعین میں تقسیم کر دی جائیں۔ پاکستانی قوم پہلے بھی اس طرح کے نعرے اور تقریریں سنتے رہے ہیں لیکن سراج الحق کا لب و لہجہ اس لئے متاثر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کوئی دال روٹی کھانے والا اور خود سادہ زندگی بسر کرنے والا سیاست دان ہی غریب عوام کے حالات کو تبدیل کرنے کی دیانت داری اور اخلاص سے کوشش کر سکتا ہے بڑے بڑے جاگیرداروں، ایکٹروں میں پھیلی ہوئی کو بھٹوں میں بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرنے والوں اور فوجی جرنیلوں سب کی حکومتوں کو عوام آزما چکے ہیں اب درویشیوں اور فقیرانہ مزاج رکھنے والے اور ایک چھوٹے سے مکان کے مکین اور عام پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے سیاست دان پر بھی اعتبار کر کے دیکھ لینا چاہئیے اور یہ بات یقیناً عوام کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے درمیان سے اپنے جیسے لوگوں ہی کو منتخب کریں۔