عمر کی رفتار بھی جذبوں پر غالب نہ آئے اور عزم متزلزل نہ ہو تو ایسے لوگ اپنے نام نہیں بلکہ اپنے کام سے پہچانے جاتے ہیں۔ وقت کی عمر لمحوں سے صدیوں تک ہے لیکن عزم و عمل کی دنیا والے لافانی ہیں۔ ان کا عمل مشعلِ راہ ہے اور عزم امید کی کرن بن کر ابد تک قائم رہتا ہے۔ مجید نظامی ایک صحافی نہیں، ایک سوچ کا نام ہے، نظریہ کی پاسداری کا بہترین نظریہ ’’مجید نظامی‘‘ ہے۔
مجید نظامی (مرحوم) نے تمام مشکلات کے باوجود ہمیشہ حق بات کی۔ قول و فعل میں تضاد نہ تھا۔ نظامی صاحب کا کردار بہت سارے افراد اور اداروں کو رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور پاکستانیت کے جذبات کو فروغ دینے میں آپ نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ مجید نظامی (مرحوم) قائدؒ کے سپاہی اور اقبالؒ کے مرد مومن تھے۔ بہادر، جرات مند، صاف گو اور صلہ رحمی کے قائل مجید نظامی (مرحوم) کی پراثر شخصیت نے ان کے گرد احباب کا وسیع گھیرا بنا دیا جو رفتہ رفتہ نظریاتی ہم آہنگی کے ساتھ بڑھتا گیا۔ مجید نظامی (مرحوم) اصول پسندی کے قائل تھے مگر کبھی اپنا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے قریبی دوستوں کے علاوہ دیگر بھی آپ کی شخصیت سے مغلوب ہو جاتے۔
مجید نظامی (مرحوم) نے نظریہ پاکستان کی حفاظت اور ترویج کے علاوہ اس کی جنگ بھی لڑی۔ مخالفت کو کھلے ذہن سے قبول کیا اور جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی ٹھوس ’’پالیسی‘‘ اپنائے رکھی۔ نئی نسل تک افکار قائدؒ کی منتقلی کے عمل کو جاری رکھا۔ یہ کام شائد مجید نظامی (مرحوم) سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔
جناب مجید نظامی دنیا فانی میں نہیں ہیں۔ ان کی تعلیم، تربیت پر بہترین کام ہو رہا ہے اور نظریاتی آبیاری کا سلسلہ جاری ہے۔ نظامی صاحب کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پورا نہیں ہو سکتا مگر ان کے قریبی ساتھیوں میں بیٹھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آدھی سے زیادہ زندگی پوری کرنے والے یہ ’’نظریاتی بزرگ‘‘ اپنے رفیق کو کسی لمحہ نہیں بھول پاتے۔ دوستی میں وفا کا بہترین نمونہ مجید نظامی (مرحوم) کے وہ ساتھی ادا کر رہے ہیں جو آج بھی جناب مجید نظامی کے لگائے ہوئے ’’پودوں‘‘ کو باعمل رہ کر پروان چڑھا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا ساتھی، دوست، دلدار (مجید نظامی) ان کے سامنے اپنی یادوں کے ساتھ ہرسو پھیلا، زندہ و جاوید نظر آتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’بزم نظامی‘‘ اداس ہو کر رہ گئی ہے۔ اب سوچ اور فکر و عمل کی وہ ’’بزم‘‘ اپنی ’’بیٹھک‘‘ نظامی صاحب کے بغیر نہیں سجا پا رہی، رونقِ بزم نہیں ہے۔
میرے گھرانے کی یہ دوسری نسل ہے جس کا ’’تعلق‘‘ نظامی صاحب (مرحوم) سے ہے۔ یہ ’’تعلق‘‘ جذباتی نہیں اور نہ ہی خون آلودہ ہے۔ اس میں سوچ، نظریات، فکر و عمل اور اصول پسندی کا لہو دوڑ رہا ہے جو آئندہ نسلوں تک جمے گا نہیں!
نظریہ ازل سے ابد تک ہے۔ نظریہ کو موت نہیں، مجید نظامی (مرحوم) نے نظریہ پاکستان کو زندہ رکھا اور عمر کے آخری حصے تک اس نظریہ کی ترویج کے لئے وہ کام کر دیا کہ پاکستان کے خلاف مکروہ فکری عزائم رکھنے والوں کے مقابلے میں ’’نظریاتی فوج‘‘ ہمہ وقت تیار کھڑی ہے۔ سوچ کا لمحہ ’’بزم نظامی‘‘ کو آباد کرنے پر زور دے رہا ہے۔ مجید نظامی (مرحوم) کے قریبی ساتھیوں کی اس ’’بزم‘‘ کو تسلسل سے اس مشن کو آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھنا ہو گا جو مجید نظامی (مرحوم) نے آخری سانس تک جاری رکھا۔ بہترین قوم وہی ہے جو اپنے بزرگوں کے فکر و عمل کو اپنا تشخص بنا لے۔
’’بزمِ نظامی‘‘
Oct 09, 2014