اپنی صحافت کے تیز رفتار دور میں مجھے استنبول، ماسکو، صوفیہ اور لندن سمیت کئی غیر ملکی شہروں میں عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ منانے کا کئی بار موقع ملا لیکن 2001ء سے میں لندن یا نیویارک اپنے بیٹوں، بہوئوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ عید یا عیدین مناتا ہوں۔ اس کے باوجود پاکستان میں عید منانے والے سالہا سال تک عیدین مناتے شہر ہائے خموشاں میں ابدی نیند سو جانے والوں کا تصور مجھے‘ اپنے بیٹوں اور ان کے اہل و عیال کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے ہوئے اپنی ’’غریب الوطنی‘‘ کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ کیا یہ میرا ناشکرا پن ہے؟ مجھے نہیں معلوم! ہر عید سے پہلے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور اصلی پاکستانی (بہاری) اور ان کی دوسری نسل کے لوگ بھی یاد آتے ہیں اور اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن ’’ضرب العضب‘‘ کے بعد اپنے ہی وطن اور گھروں سے بے گھر ہونے والے 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں سے پوچھئیے کہ…؎
ہائے! کیا چیز‘ غریب الوطنی ہوتی ہے
میں نے اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان اور پوتوں شاف علی چوہان اور عزم علی چوہان کے ساتھ نیویارک کے علاقہ ’’Long is Land‘‘ میں لانگ آئی لینڈ مسلم سوسائٹی کی جامع مسجد میں نماز عید ادا کی۔ امام صاحب نے اسلام کو ’’امن کا دین‘‘ قرار دیتے ہوئے، رحمت للعالمینؐ کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ کی عظمت بھی بیان کی۔ امام صاحب جب صاحبان حیثیت مسلمان نمازیوں کو تلقین کر رہے تھے کہ ’’قربانی کے گوشت کی تقسیم میں غریبوں کا بھی خیال رکھا جائے!‘‘ تو مجھے پتہ چلا کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں سپرپاور امریکہ میں بھی غریب مسلمانوں کمی نہیں۔ بہرحال ہر رنگ اور ہر نسل کے مسلمان وقت نِماز؎
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
مسجد کی قربت میں ’’Christ Alive Church‘‘ کی قدیم لیکن خوبصورت عمارت تھی۔ مسجد کئی سال بعد تعمیر ہوئی چرچ اور مسجد میں مصروف عبادت عیسائی اور مسلمان ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے کی کوشش نہیں کرتے۔ میں نے دیکھا کہ مسجد اور نمازیوں کی حفاظت کے لئے حکومتی سکیورٹی فورس کے اہلکار یا مسجد کی انتظامیہ کے مسلح رضا کار نہیں تھے۔ دوران نماز اور نماز کے بعد مسجد میں کوئی خودکش حملہ نہیں ہوا۔ مجھے پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ کے کسی فاضل جج اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور ارکان سے فی الحال پوچھنے کا موقع نہیں مل سکا کہ ’’عیدین کی نماز کے وقت ہزاروں کی تعداد میں مسلح فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار، مسجد اور نمازیوں کی حفاظت کے لئے تعینات ہوتے ہیں۔ کیا ان پر نماز عید واجب نہیں۔ کیا ’’نماز بدل‘‘ کا کوئی نظام قائم ہے؟
گزشتہ سال عیدالاضحی سے قبل ستمبر میں پشاور کے ’’All Saints Church‘‘ پر طالبان کے کسی ’’غیر محب وطن گروہ‘‘ نے خودکش حملہ کر دیا تھا۔ چرچ میں مصروف عبادت مسیحی برادری کے 81 افراد ہلاک ہو گئے تھے تو ’’محب وطن طالبان‘‘ کے ترجماں شاہد اللہ شاہد نے کہا تھا کہ ’’پشاور کے چرچ پر حملہ ہم نے نہیں کرایا لیکن جس نے بھی کیا ہے شریعت کے عین مطابق کیا ہے اس حملے سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی تھی۔ صدر اوباما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا اورکہا تھا کہ ’’ایسے حالات میں امریکہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے کیسے بند کر سکتا ہے؟‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران جتنے دن بھی گزارے شرمندگی میں گزارے کیونکہ اس وقت آپریشن ’’ضرب العضب‘‘ کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
امریکہ‘ برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں ’’Social Welfare‘‘ کا نظام ہے دس دس اور پندرہ پندرہ سال تک اشیائے خوردنوش کی قیمتیں بڑھنے نہیں دی جاتیں۔ عیسائیوں، یہودیوں، مسلمانوں، ہندوئوں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے تہواروں پر قیمتوں میں 50 فیصد کمی کر دی جاتی ہے۔ میں نے ایک خوش گفتار اور خوش لباس سجادہ نشین سے پوچھا کہ ’’امریکہ اور یورپی ممالک کے سوشل ویلفیئر سسٹم کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو موصوف نے کہا کہ ’’اثر چوہان! آپ کو ان ملکوں میں ہونے والی بدمعاشیاں نظر نہیں آتیں؟ یہی سوال ایک اینکرپرسن نے وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا یہاں ’’Free Economy‘‘ جی ہاں! بہت ہی زیادہ فری اکانومی مادر پدر آزاد اکانومی اور جسے ہر گریڈ کا ’’حاجی بلیک‘‘ چلاتا ہے۔
فرزندان و دختران پاکستان‘ حصول تعلیم‘ ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں امریکہ یا دوسرے ملکوں میں آباد ہو جاتے ہیں لیکن جن کے والدین حیات ہیں یا جو ان کی قبروں پر پھول چڑھانے پاکستان آتے جاتے ہیں یا اپنے رشتہ داروں سے ملنے‘ ان کی جڑیں پاکستان میں ہوتی ہیں وہ پاکستان کی بھلائی کے لئے سوچتے ہیں اور پاکستان کے ہر دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں۔ 2009ء میں برادرم سعید آسی کی اردو شاعری کا انتخاب تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں‘‘۔ منظر عام پر آیا۔ اس کتاب میں جناب آسی نے بارگاہ ایزدگی میں دعا کرتے ہوئے کہا تھا…؎
عزتوں کا رکھوالا مولا!
سب کی سننے والا مولا!
دل کی اندھیری نگری میں
کردے سحر اجالا مولا!
مجھے اب تک اپنے بیٹے اور بہو ڈاکٹر عالیہ چوہان کے جن ’’Family Friends‘‘ سے اپنے گھر اور ان کے گھر ملاقات کا موقع ملا! ان میں عزیزم تیمور ظریف ان بیگم ڈاکٹر عائشہ، ڈاکٹر عصمت اللہ، ان کی بیگم ڈاکٹر عائشہ، ڈاکٹر محمد اظہر ان کی بیگم ڈاکٹر فضہ اور ڈاکٹر بلال خان اور ان کی بیگم ڈاکٹر شہلا سب کے سب سات سمندر پار رہ کر بھی پاکستانی ہیں۔ لاہور دی جم پل ڈاکٹر محمد اظہر اپنے دادا جی اور والد صاحب کے دور کے لاہور کو یاد کر کے آبدیدہ ہوئے تو میں بھی اداس ہو گیا ان لوگوں کا مشترکہ خیال (فیصلہ) ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنے پیارے پاکستان کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن پہلے پاکستان میں اپنی مرضی سے رہ جانے والے ہمارے بزرگوں اور دوسرے رشتہ داروں کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت تو دی جائے؟ کوئی اوورسیز پاکستانی اپنے بوڑھے والدین کے لئے مکان خریدتا ہے تو اس پر طاقتور لوگ قبضہ کر لیتے ہیں اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی سیاستدان اقتدار میں آتا ہے تو قومی دولت لوٹ کر بیرونی بنکوں میں جمع کرا دیتا ہے ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کا کون ’’Risk‘‘ لے گا۔
بنگلہ دیش کے جناب محمد عبداللہ عبداللہ‘ ان کی بیگم سلیمہ، بیٹی زارا اور دوسرے بچے کئی سال تک میرے بیٹے، بہو اور پوتوں کے پڑوسی رہے ہیں۔ میری بھی ان سے ملاقاتیں رہی ہیں سب لوگ عید کے دن آئے تو سلیمہ کی والدہ صاحب بھی تھیں۔ میرے بڑے پوتے شاف علی چوہان نے 18 دسمبر 2013ء کو جناب مجید نظامی کی سرپرستی اور ڈاکٹر کرنل (ر) جمشید احمد ترین کی چیئرمین شپ میں کئی سالوں سے سرگرم عمل ’’تحریک پاکستان ورکر ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے (اپنے پڑدادا میرے والد صاحب) رانا فضل محمد چوہان کو تحریک پاکستان کے کارکن کی حیثیت ملنے والا گولڈ میڈل اور سرٹیفیکیٹ دکھایا تو اس پر قائد اعظم کی تصویر دیکھ کر سلیمہ کی والدہ صاحبہ نے کہا ارے یہ تو قائد اعظم کی تصویر ہے! میں آبدیدہ ہو گیا مجھے جناب مجید نظامی بھی یاد آئے جو بنگلہ دیش اور پاکستان کو متحد دیکھنے کی حسرت لئے خالق حقیقی سے جاملے۔ میں نے اور جناب مجید نظامی کے دوستوں، ساتھیوں اور عقیدت مندوں نے جناب نظامی کے بغیر عیدالفطر منالی تھی اور اب عیدالاضحی بھی منالی۔ 1947ء میں میں ہندوستان کے کئی شہروں میں اپنے بزرگوں کی قبریں چھوڑ آیا تھا۔ وہ میری مجبوری تھی لیکن میں پاکستان میں اپنے بزرگوں اور دوسرے پیاروں کی قبروں کو (جیتے جی) چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں۔ میرا ایک بیٹا اور بہو اسلام آباد میں ہیں اور ایک بیٹی اس کا شوہر اور بچے لاہور میں میرے چار بیٹے اور تین بیٹیاں اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور سعودی عرب میں۔ گویا…؎
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری