ایک تصویر جس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ ڈالاہے ، مردہ بچے ایلان کی تصویر جو دلوں کو چھو رہی ہے۔ ایسی تصویر جو دنیا بھر کے تارکین وطن، مہاجرین کے المیے کی علامت بن گئی ہے۔ ایک بچے کی ساحل پر تیرتی نعش۔ یہ کسی کا بچہ نہیں پوری دنیا پر مسلط بے حسی اور نفسا نفسی کا بچہ ہے۔ آج یورپ، ایشیا، مشرق بعید، مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا میں تارکین وطن بحرانوں اور زندگی کے سنگین تلخ حالات سے گزر رہے ہیں۔ فلسطین، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کی ہجرت اور بستیوں کو تاراج کرنے کی گونج تھمی نہیں تھی کہ شام، عراق، یمن کے لاکھوں انسان حالات کی سفاکی کا شکار ہو کر ارد گرد کے ممالک کی سرحدوں اور یورپ کی سرحدوں میں داخل ہونیوالے افواج اور پولیس کے مظالم کا شکار ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہر قسم کے مہلک ہتھیار امریکہ اور یورپ میں بنتے ہیں اور پوری دنیا میں موت کی سوغات تقسیم کرتے ہیں۔ سازشوں، بالادستی کے خوفناک عزائم ، ممالک کو لڑانے اور تقسیم کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمد کے بعد انسانوں پر وطن کی زمین اور زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔ نہ کھانے کو مل رہاہے نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے وہ زندگی کی تلاش میں نکلنا چاہتے ہیں لیکن جائیں تو جائیں کہاں۔ تارکین وطن کے قافلوں کی اموات روزانہ عالمی منظر پر نمایاں ہو رہی ہیں لیکن کوئی مستقل علاج نہیں نکالا جارہا۔ کوئی مشترکہ فکر نہیں انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ اپنا گھر بار ، دیار اور وطن چھوڑنا کیا اچھا لگتاہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، دیگر اہلخانہ، یار دوست، بستی والوں کو چھوڑنا، مال مویشی، زرعی زمین، روزگار کے وسائل چھوڑ کر کسی بھی مجبور ی کے تحت ترک وطن کرنا ہر ایک پر شاک گزرتا ہے۔ اس وقت دنیا میں تارکین وطن کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ تارکین وطن اور تین کروڑ آئی ڈی پیز سائوتھ ایشیا، سنٹرل ایشیا، سنٹرل افریقہ، غربی افریقہ، جنوبی افریقہ، شمالی افریقہ،شرق وسطی، سائوتھ ویسٹ ایشیا، ایسٹ ایشیا اور پیسفیک، ایسٹرن یورپ، سائوتھ ایسٹرن یورپ، نارتھ ویسٹ اور سنٹرل یورپ، نارتھ امریکہ اور کریبین، لاطینی امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں پاکستان، افغانستان، فلسطین، مقبوضہ کشمیر، شام، عراق اور افریقی ممالک کے تاریکین وطن آئی ڈی پیز کی بڑی تعداد ہے۔ عراق، شام، لبنان، یمن کی تازہ ترین صورتحال میں لاکھوں نئے تارکین وطن اپنے گھروں سے جان بچانے کیلئے نکل رہے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ چار ملین فلسطینی اور بنگلہ دیش میں چار لاکھ محصورپاکستانی مہاجرین یا آئی ڈی پیز میں شامل نہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان مہاجرین کی بڑی اور غالب تعداد کو مسلمان ممالک، مسلمان معاشرے قبول کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب، ایران، ترکی، عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک تارکین وطن کا سہارا بنتے آرہے ہیں لیکن تارکین وطن نے یورپ کا رخ کیا ان یورپی ممالک نے اپنے ساحل اور سرحدیں ان کیلئے بند کر دیں اس لیے مسیحی دنیا کے سب سے بڑے کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس نے پوری برادری سے اپیل کی کہ تارکین وطن کیلئے اپنے دروازے کھول دیں لیکن یورپی ممالک نے بہت ہی محدود عمل کیا۔ تارکین وطن انسان ہیں لیکن ان انسانی المیوں سے عہدا براء ہونے کیلئے انسانیت اور انسانوں والا دل چاہیے۔ سنگدلی، ظلم اور جبر روزانہ نئے انسانی المیوں کو جنم دیتارہے گا۔
دنیا کے مختلف ممالک میں تارکین وطن کے 9 سو مہاجر کیمپ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ممالک میں جنگ، نسلی تعصبات، مذہبی کشیدگی، سیاسی تنائو اور امتیازی سلوک کاشکار ہوئے اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ یو این ای ایچ آر کی رپورٹ کیمطابق تقریباً بیس ملین لوگ مہاجر ہیں اور تقریباً تیس ملین افراد اندرونی طور پر اپنے ملکوں میں ہی بے گھر ہوئے ہیں جنہیں آئی ڈی پیز کا نام دیا گیاہے ، تارکین وطن اور آئی ڈی پیز میں 48 فیصد خواتین ہیں۔ بچوں اور بچیوں کی بڑی تعداد خوراک کی کمی اور تعلیم سے محرومی انہیں ہر طرح سے تباہ کر رہی ہے۔ دو کروڑ کے لگ بھگ تارکین وطن اور تین کروڑ کے لگ بھگ اپنے ہی ملکوں میں در بدر انسانوں کی کیمپ زندگی روزانہ بڑے المیوں کو جنم دے رہی ہے۔ ان میں احساس محرومی، انتقام، نفرتوں، شدت پسندی سر فہرست ہیں جس کی وجہ سے کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا خرابیوں سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی ممالک عالم اسلام کے اہم ترین ممالک ماضی اور ماضی قریب کے انسانوں اور انسانیت کی بربادی سے سبق سیکھیں۔ پوری دنیا رفتہ رفتہ جہنم کا منظر بنتی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر جنگ، طاقت سے اپنے ایجنڈے کا نفاذ، آزاد ممالک کی آزادی چھیننا، جمہوریت کیلئے پسند و ناپسند کے فیصلے عالمی سطح پر تنازعات کو حل کرنے کی بجائے تیل ڈالنا ترک کیا جائے۔ حقائق کی بنیاد پر ڈائیلاگ اور انصاف کی بنیاد پر غلطیاں تسلیم کرتے ہوئے عالمی مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ تارکین وطن آئی ڈی پیز کے مسائل کے حل کیلئے یہ امر اور اقدامات ناگزیر ہیں کہ انسانی مسئلہ کو انسانی مسئلہ تسلیم کیا جائے۔ وہ ممالک پالیسیاں اور جنگی جنون جس سے انسان اپنا وطن، اپنا گھر، اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں، تبدیل کیا جائے۔ دنیا کو عملاً جنگوں، انتہا پسندی، دہشتگردی اور عدم برداشت کی آگ سے نجات دلائی جائے۔ حل کیا ہے؟
دنیا میں امن سب کا عملاً نیک نیتی کی بنیاد پر مشترکہ ایجنڈا بنایا جائے تاکہ دنیا بھر کے انسانوں کو ظلم، زبردستی، جبر سے نجات مل جائے۔
تمام عالمی اداروں اور عالمی قوتوں کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اس وقت دنیا میں انتہا پسندی، نفرتیں، تعصبات، مذہب کے درمیان فسادات، دوہرے معیارات کی وجہ سے ہیں۔ پسند و ناپسند کی بنیاد پر پالیسی اور اقدامات نہ کیے جائیں۔ مذاہب کی تفریق نہیں، تمام انسانوں کی آزادی، مجبوری، معاشی حقوق تسلیم کیے جائیں۔
عالم اسلام اس وقت سب سے بڑی آزمائش میں ہے۔ بیرونی سازشیں اور بیرونی ایجنڈا بھی اہم کردار ادا کررہاہے لیکن عالم اسلام میں شیعہ، سنی، وہابی تقسیم، مسلم حکومتوں اور حکمرانوں کی بے حسی سب سے بڑی ذمہ دار ہے۔ شام، عراق، افغانستان، کشمیر، مصر، بنگلہ دیش، لبیا کے مسائل صرف اس وجہ سے ہیں کہ پاکستان، ایران، ترکی، سعودی عرب ایک پیج پر نہیں اس لیے انسانی المیے ہجرت ، اندرونی طور پر بے گھر ہونے کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ عالم اسلام کو اپنی ذمہ داری ادا کرناہوگی۔
تارکین آج جس المیے اور بحرانوں سے دوچار ہیں، اس کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں:۔
تارکین وطن کیلئے کم از کم بنیادی سہولتوں کے ساتھ شیلٹر مہیا کیا جائے تاکہ انسان گھروں سے بے گھر تو کر دیے گئے لیکن انکے انسانی، معاشرتی ضروریات پوری ہوں۔ تارکین وطن اور آئی ڈی پیز کی بڑی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ خواتین کی ضروریات اور بچوں کیلئے تعلیم کی سہولتیں ترجیحات میں شامل کی جائیں۔ عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کا نعرہ ہی نہیں مسائل سے دوچار ان خواتین کے عملاً مسائل حل ہوں۔ خوراک اور پینے کا صاف پانی مہیا کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کرپشن نے ان سہولتوں اور سپلائز سے حق داروں کو محروم کر دیا ہے۔ تارکین وطن اور آئی ڈی پیز کیلئے خوراک فراہمی کا نظام نتائج سے پاک بنایا جائے۔مہاجرین کے کیمپوں میں صحت کی سہولتیںناگزیر ہیں۔ ماں اور بچے کی صحت ، مختلف بیماریوں سے بچائو کیلئے ویکسی نیشن کا معقول انتظام مسائل اور مشکلات برداشت کرنے کا ماحول پیدا کریگا۔ترک وطن ہجرت کے اسباب ختم کرنا ضروری ہے۔ دنیا میں امن، تعلیم، معاشی حقوق کا تحفظ وقت کا اہم ترین ایجنڈا ہے۔ انسانوں کے حقوق آزادی، انسانی حقوق، معاشی اور سماجی انصاف کی بنیادیں تسلیم کی جائیں۔ تارکین وطن کی کفالت اور حالات کی بہتری پر اپنے وطن واپسی کا بہتر نظام بنایا جائے۔ مجبوری کی حالت میں ترک وطن کرنے والوں کو کسی دوسرے اور تیسرے ملک میں آباد کاری کا نظام بنایا جائے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ہی اس حوالے سے کردار ادا کر سکتے ہیں۔