اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کے مقدمے میں سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ رپورٹ چھ ہفتوں میں سپریم کورٹ میں جمع کرئے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ صوبوں کے پاس ماحولیات کے حوالے سے دیئے گئے بجٹ سے 95 سے 98 فیصد رقم تو تنخواہوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتی ہے۔ تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد بچتا ہی کیا ہے ادارے کیسے کام کریں۔ ہم افسروں کو ضرورت کے مطابق ہی طلب کرتے ہیں وگرنہ ہم نے کوئی افسران کے ساتھ تصویریں تھوڑی کھچوانا ہوتی ہیں۔ سندھ میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین کا رنگ تک بدل گیا ہے مگر حکومت نے سپر ہائی وے اور دیگر اہم جگہوں پر قائم آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ حالت یہ ہے آلودگی کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور ڈائریکٹر ماحولیات سندھ کہتے ہیں کہ صنعتوں کے مالکان معائنہ اور کارروائی کے لئے انہیں پکڑائی نہیں دے رہے ہیں۔ صنعتوں سے مضر صحت دھواں اور دیگر آلودگی پھیل رہی ہے ہم شہریوں کو اس آلودگی کا شکار نہیں ہونے دینگے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا ہے کہ سندھ حکومت خدا کا خوف کرے اور آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو کس قانون کے تحت کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ صوبے ماحولیات کی آلودگی کے خلاف جس طرح کے اقدامات کرنے چاہئے تھے نہیں کر رہے ہیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے ڈائریکٹر ماحولیات نے رپورٹ پیش کی کہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے صوبے بھر میں صرف ایک ٹریبونل کام کر رہا ہے جس کے رو برو 1292 شکایات موصول ہوئی ہیں اور 1232 کے قریب ریفرنس دائر ہوئے ہیں 1169 زیر التواءہیںجبکہ 707 شکایات نمٹا دی گئی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے صنعتوں کو 81.450 ملین روپے جرمانہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو رپورٹ دی تھی وہ 2013ءمیں دی تھی اب جبکہ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب کیا صورتحال ہے۔ اس پر عدالت کو بتایا گیا ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے 36 سینئر سول ججز اور دیگر انسپکٹرز مقرر ہیں اور 36 سماجی تنظیمیں (این جی اوز) ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کر رہی ہیں ان کو بھی پنجاب حکومت بجٹ فراہم کرتی ہے۔
چیف جسٹس