اسلام آباد (صباح نیوز) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے متعلقہ اداروں سے اسلام آباد کے تمام نجی تعلیمی اداروں کی پانچ سالہ آڈٹ رپورٹس ، ٹیکس ادائیگیوں، فیس کے بنیادی ڈھانچے، اساتذہ کو تنخواہوں اور ان اداروں کے مالکان کی دولت اور اثاثوں کی تفصیلات طلب کر لیں ہیں، تعلیمی اداروں سے متعلق پیرا کو ناکام ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو ادارہ دو برس میں اپنے قواعد و ضوابط وضح نہ کر سکے وہ والدین کو نجی تعلیمی اداروں کی زیادتیوں سے کیسے محفوظ رکھ سکے گا نجی تعلیمی اداروں کا فیس سٹرکچر قومی جرم کے مترادف ہے ہر ایک نے اپنا سسٹم بنا رکھا ہے کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چیئرمین پیرا کے اپنے بچے نجی سکول میں پڑھ رہے ہیں وہ کس طرح قانون پر عملدرآمد کروا سکیں گے۔ کمیٹی نے اسلام آباد میں نجی تعلیمی اداروں کو الاٹ پلاٹس اور ان سے حاصل ہونے والی رقوم کی تفصیلات بھی طلب کر لیں ہیں۔ سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ رہائشی علاقوں میں گھروں میں بنے ہوئے سکولوں کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کر دیا گیا ہے۔ کمیٹی نے قرار دیا کہ بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دو تین سو روپے اضافے کو واپس لے لیا گیا بلکہ فیسوں کا بنیادی ڈھانچہ ہی غیر منصفانہ ہے کوئی سکول ڈیڑھ لاکھ کوئی تیس اور پچاس ہزار کی ماہانہ فیسیں وصول کر رہے ہیں پیرا کے حکام نے بتایا کہ سیکورٹی، جنریٹر، تقریبات، ہنگامی فنڈز اور انٹرٹینٹمینٹ کے حوالے سے بھی بچوں سے ہزاروں روپے وصول کیے جاتے ہیں پریپ اور نرسری کے بچوں سے بھی چھ چھ ہزار روپئے ہنگامی فنڈ کے نام پر وصول کیے جاتے ہیں جبکہ یہ بچے سکول کو کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں دو دو تین تین کمروں پر بھی سکول قائم ہیں بڑے سکول برانچیں بنا چکے ہیں بعض سکولوں میں پریپ کی فیس 50,000 روپے ماہانہ تک ہے سینیٹر طلحہ محمود اور سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ پیرا اب تک سویا رہا والدین احتجاج نہ کرتے تو یہ معاملہ دبا رہتا۔
سینٹ کمیٹی