ذکرِ حضرت امام حسین علیہ السلام ....دائمی ہدایت کا ذریعہ

Oct 09, 2016

حضر تِ صبا اکبر آبادی نے کیا خوب کلّیہ دے دیا ہے:
ہم عاشقانِ آلِ محمد ہیں اے صبا
زندہ رہیں گے نام ہمارے فنا کے بعد
ہدایت اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے ایک عنایت ہے۔ ہدایت کا جو بھی نظام ہوگا، اُس کی بقا واجب ہے۔ قاعدہ، کُلّیہ، کسوٹی، فارمولہ یہ ہے کہ ذکرِ حضرت امام حسینؑ کیوں کہ ہدایت کا ذریعہ ہے اور وہ ہر کام جو ہدایت کا ذریعہ ہے، اُس کی بقا واجب ہے۔
ذکرِ امام حسین ؑ کیوں کہ ہدایت کا ذریعہ ہے، انسانیت کے فروغ کا ذریعہ ہے، لوگوں کو اَخلاقیات کی تعلیم و تربیت دینے کا ذریعہ ہے، دینِ اسلام کی بقا کا ذریعہ ہے، قرآن کریم کے تحفظ کا ذریعہ ہے، اقدار کی بحالی کا ذریعہ ہے، لہٰذا ہر وہ شے جو ہدایت کا ذریعہ ہو، اُس کی بقا واجب ہے۔ پس تذکرہ¿ شاہِ شہیدان کربلا ؑ مستحبات میں مت تلاش کریں۔ تذکرہ¿ امام حسین علیہ السلام واجبات میں بھی کوئی زیادہ واجب عمل ہوسکتا ہے، تو اُسے کہا جاتا ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذکر میںحسبِ دستور لوگوں کی ماشاءاللہ بھرپور شرکت ہے۔۔۔اور کیوں نہ ہو،جس کا ارادہ اللہ نے کِیا ہے، جسے اللہ زندہ دیکھنا چاہتا ہے، جس کے پیچھے حضرتِ بی بی زہرا ؑ کی نگاہِ خا ص ہے۔
ذکرِ امام عالی مقام ؑ مذہب و مسلک ، ملک وملّت، زبان ، قوم ، رنگ و نسل، تہذیب و ثقافت، الغرض ہر طرح کے امتیازات سے بالا تر ہے۔ اِس ذکر سے ہر وہ شخص جُڑا ہوا ہے، جس کا ضمیر زندہ ہے۔ جس کی فطرت باقی اور سالم ہے۔
درِ حسین ؑپہ ملتے ہیں ہر مزاج کے لوگ
یہ دوستی کا وسیلہ ہے، دُشمنی کا نہیں
اگرچہ اپنی گفتگو مطلوب نہیں ہے ۔ بات آگئی ہے تو کہہ رہا ہوں، مرحوم و مغفور آلِ محمد رزمی کراچی کے ایک شاعر تھے ....اللہ اُن کی رُوح کو شاد رکھے۔ اُنھوں نے کہا کہ آپ ننکا نہ شریف سے گُزرتے ہیں....؟ میں وہاں سے ایک مجلس پڑھنے جاتا تھا۔ کہنے لگے، آپ گرونانک کے مزار پہ کیوں نہیں جاتے ہیں....؟
میں نے کہا، صاحب ! میرا اُن سے کیا واسطہ ہے ....؟ فرمایا:محبِّ اہلِ بیت ؑ تھے۔
تو میں نے کہا: اب ضرور جائیں گے ۔ پہنچ گئے وہاں ،دروازے پرروک لیا گیا....کہنے لگے کہ سکھوں کے علاوہ کوئی اندر نہیں جاسکتا۔
میں نے کہا ،ذرا جا کے اپنے بڑے کو بتائیں، مکتب ِ اہلِ بیت ؑکا پیروکار آیا ہے ۔
جو اُن کا سربراہ تھا، وہ دروازے تک چلتا ہوا آیا اور کہنے لگا: آپ کے لیے دروازہ بند نہیں ہے ۔
کیوں....؟ اِس لیے کہ آپ نے بھی دروازہ کسی کے لیے بند نہیں رکھا۔
ہم مظلوموں کے ماننے والے ہیں۔ کل جنھیں کربلا میں بے جرم و خطا بے دردی سے شہید کردیا گیا، آج اُن کے روضے ہدایت اور رہ نُمائی کا باعث ہیں۔ پوری دُنیا کے لوگ اُس جانب رُخ کرکے دیکھتے ہیں، تو اُنھیں ہدایت نصیب ہوتی ہے ۔ حضرتِ راغب مراد آبادی فرماتے ہیں:
تیری شہادتِ عظمیٰ کی شرح کیسے ہو
یہی وہ رُخ ہے کہ اسلام رہ گیا باقی
تذکرہ¿ امام حسین علیہ السلام یقینا ہماری جان ہے ۔ اس لیے کہ جان ہوگی تو ہم نماز پڑھیں گے۔ جان ہوگی تو ہم روزہ رکھیں گے۔ ذکرِ شاہ شہیدانِ کربلا ؑہماری جان ہے ۔ جان ہوتی ہے تو ہم اللہ کے حضور حاضری دیتے ہیں۔
اور اب آئیے ہم سورہ¿ مبارکہ احزاب کی تیئسویں آیت کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے :
”ایمانداروں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خدا سے انھوں نے (جاں نثاری کا) جو عہد کیا تھا اُسے پورا کر دکھایا غرض ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنا وقت پورا کر گئے اوران میں سے بعض (حکمِ خدا کے ) منتظر بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات ذرا بھی نہیں بدلی۔“
یہ وہ آیت ہے جسے امام حسین علیہ السلام نے روزِ عاشورہ شہداءکے جنازوں پہ تلاوت کیا۔ جب جناب حبیب ابنِ مظاہرہ ؑ کا لاشہ لائے....تب حسین ابنِ علی علیھماالسلام نے اس آیت کو دوہرایا۔ جب جناب مُسلم ابنِ عوسجہؑ کا لاشہ لائے، تب امام عالی مقام ؑ نے اِس آیہ¿ کریمہ کی تلاوت فرمائی....” کچھ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ سے اپناوعدہ پورا کر دیا۔“ اور دُوسروں کو دیکھ کر فرمایا:
”کچھ ہیں جو اپنے وعدے کو پُورا کرنے کے منتظر ہیں۔“
اور فرمایا کہ ”یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کیے ہوئے اِرادے کو، اپنی نیتوں کو تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔“
زمین آسمان ایک ہو جائے، مگر اِن کا نظریہ اِن سے نہیں چُھٹے گا۔ یہ اپنے نظریے پہ باقی و سالم رہیں گے ۔
حضرتِ معجز جون پوری نے کیا خوب سوال کِیا ہے، جوبنی نوع انسان کے لیے یقیناً لمحہ¿ فکریہ ہے:
کربلا میں آپ گر ہوتے تو ہوتے کس طرف
ایک جانب تھے مسلماں، اِک طرف اسلام تھا
سارا مسئلہ صداقت کا ہے ۔ سارا مسئلہ سچائی کا ہے ۔یہ پوری دُنیا چل ہی سچائی کی بنیاد پر رہی ہے ۔ اور جہاں بگاڑ ہے ، وہ بھی سچائی نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ہمیں اپنے آپ سے سچا ہونا ہے ۔
سچائی کے تین مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے پہ ہمیں اپنے آپ سے سچائی کی ضرورت ہے ۔دوسر ے مرحلے پہ اپنے اہلِ خانہ سے سچائی کی ضرورت ہے ۔ اہلِ خانہ سے سچائی ، عزیز و اقارب سے سچائی اور صلہ¿ رحمی، پڑوسی کا خیال اور ہم وطنوں کا خیال، ہم مذہبوں کا خیال، ہم نظریہ لوگوں کا خیال ....اِس کا ہم سے سوال ہوگا۔
اور تیسرا مرحلہ ہے اللہ سے سچائی۔ جو زیادہ سخت مرحلہ ہے ۔ مذکورہ بالا آیہ¿ کریمہ میں اللہ نے اسی کا ذکر کیا ہے ۔ جو اللہ سے سچا ہے ، وہ اپنے آپ سے بھی سچا ہے ، جو اللہ سے سچا ہے وہ اپنے جیسوں سے بھی سچا ہے ۔
آیہ¿ کریمہ میں اُنھی کا تذکرہ ہے جو اللہ سے سچے ہیں۔ یہ سب سے بڑا ، سخت اور مشکل مرحلہ ہے۔۔۔ اور جو اِس مرحلے سے گزر جاتے ہیں، پھر وہی اِس دنیا میں باقی رہنے والے ہوتے ہیں۔اُن کے بدنوں پہ گھوڑے دوڑا دیئے جاتے ہیں، مگر اُن کے مزارات، روضے قیامت تک کے لیے مرجعِ خلائق اور ہدایت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
جب بھی کسی کمال کی جانب بڑھے قدم
دیکھا سُوئے حسین ؑ چلا جارہا ہوں میں

مزیدخبریں