تحریکِ انصاف کی احتجاجی پالیسی اور لیتھیسز کانفرنس

تجزیہ کار اور سیاسی لوگ کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ عمران خان سولو فلائٹ کے عادی ہیں۔ جواب میں ان کی طرف سے باقی جو اپوزیشن میں ہیں، دکھلاوے اور میڈیا کی حد تک ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس ڈائی ہارٹ ورکر ضرور ہیں، الیکشن کی حد تک کوئی بڑا معرکہ نہیں مار سکتے۔ دوسرا ان کا اپنا اسکول آف تھاٹ ہے۔خان کو ان کا ساتھ ضروری ہے۔جبکہ تحریک انصاف بھی نرم گوشہ رکھتی ہے، لیکن قیادت کے ٹکراو¿ تک نہیں۔ان کی سوچ کے مطابق بڑا لیڈر عمران خان ہی ہے۔ تحریکِ انصاف اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں وہ ہار گئے لیکن مستقبل کی پیش بندی، عوام کی سوچ کا اندازہ ،آنے والے قومی الیکشن میں کیا جا سکتا ہے۔ تبدیلی کا نعرہ اور ووٹ عمران خان کا برقرار ہے۔حالیہ رائے ونڈ جلسے اور خان کی آئندہ حکمت عملی کا جائزہ اگر لیا جائے تو عمران خان پارٹی کے اندر اختلافات کے باوجود جیسی رائے کو جس انداز سے چلاتے نظر آتے ہیں وہ پارٹی میں موجود دوسری پارٹی کی طرح بلیک میلنگ کے عنصر سے اچھے طریقے سے مستقبل کے لئے منصوبہ بندی رکھتے ہیں۔لیکن اصل مسئلہ کیا ہے، تبدیلی اور سولو فلائٹ کا یعنی چند ہزار اور سینکڑوں کارکنوں کی پارٹی والوں کو اپنے برابر وہ کیوں سمجھیں۔ اقتدار کے مستقبل کی تقسیم میںبڑی پارٹی اور چھوٹی پارٹی کو حصہ اور قیادت تسلیم کرنے کا بھی معاملہ ہے۔لوگوں کی عمران خان کے ساتھ والہانہ وابستگی ضرور نظر آتی ہے۔ اپر متوسط طبقہ اور پڑھی لکھی ایلیٹ عمران خان کے ساتھ ضرور ہے، نچلا طبقہ کم ہے۔کیا تحریکِ انصاف کے پاس عام آدمی کے لئے کوئی پروگرام اور نعرہ ہے۔ نعرے کی حد تک تبدیلی نہیں، نظام بدلنے کی کوئی تدبیر ،ریاست اور ریاستی ادارے تو وہی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد واسطہ تو انہی اداروں سے پڑے گا۔ کوئی پروگرام سوائے کرپشن اور انصاف کے صرف نعرے تک محدود ہے۔تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ بھٹو کی پارٹی اپنے سوشلسٹ نظریات تئیں عوام میں جگہ بنائے ماضی میں رکھتی رہی ہے۔ قیادت نہ رہی، آج پی پی پی کہاں کھڑی ہے۔ یہ مانا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے لوگ، ورکر بار بار ایجی ٹیشن کے باوجود تھکے ہارے نہیں۔ حالیہ رائے ونڈ لاہور کا جلسہ واقعی پر جوش جہاںتھا وہاں ملک کے کونے کونے سے لوگ آئے اور شریک ہوئے۔ اب دیکھتے ہیں اسلام آباد پر یلغار کی آواز یعنی فائنل شو ڈاو¿ن کیا رنگ لاتا ہے۔ حکومت کے لئے سخت پیغام ہے، کیسے کنٹرول کرتی ہے، ماضی کے دھرنوں سے یہ شو مختلف ہوگا۔گرفتاریاں، جیلیں بھرو یا پھر کوئی اور راستہ پہلے کی طرح ،حکومت کے لئے معاملہ آسان نہیں۔اسلام آباد بند کرنے کی آواز خطرناک اور گھمبیر معاملہ لگتا ہے۔ رائے ونڈ جلسے میں شرکت کی ریلی جہاں سے گزری، مہمان نوازی انتہا کو تھی۔ موٹر وے کیا، ہر اطراف سے جلسے میں آمد کے لئے سڑکوں پر ہجوم تھا۔پنجاب خاصا عمران خان کی طرف راغب ہے۔ مگر ابھی غریب غرباءنہیں۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں عمران خان کی تحریک انصاف مستقبل میں ن لیگ کے لئے بڑا چیلنج ہے، انکار ممکن نہیں۔ حالیہ عمران خان کا بیان اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں شریک نہ ہونااور وزیر اعظم کی تبدیلی کا مطالبہ ، ن لیگ سے جماعتی طور پر اور وزیر اعظم کا احتساب پانامہ لیکس ایک نیا رنگ لے آیا ہے۔یہ کیسی تبدیلی ہے ، کہاں سے آواز آئی، اسمبلی میں شرکت کرتے کرتے پینترا بدل دیا۔ پی پی پی اب ماضی کی یادوں میں گم ہے۔ موجودہ وقت قومی اتحاد اور جمہوری تسلسل کا ہے۔خان صاحب روایت برقرار رکھیں تو شاید مستقبل میں وزیر اعظم بن جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عمران خان ایک مذاق ہی تصور ہوں گے۔ حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفیکیٹ دینے پر، عوام اب ملکی سطح پر نالاں ہیں۔بے نظیر کے لئے سکیورٹی رسک کا واویلا عوام کے ذہنوں میں ہے، اب ایسا نہیں ہونا چاہےے۔تحریک انصاف ، اس کی قیادت کے لئے ضروری ہے کہ وہ تبدیلی کے لئے لوئر مڈل کلاس، مزدور کسان، تعلیم، صحت عامہ کا شعبہ اور انصاف کے سستے حصول کے علاوہ بیوروکریسی سے نبٹنے کے لئے عام آدمی کے فائدے کے لئے کیا انقلابی اور نظریاتی پروگرام دینے کا لائحہ عمل رکھتی ہے۔ پارٹی انٹرا الیکشن کروا کے مفاد پرستوں کو دور رکھا جا سکتا ہے۔یہ کہنا کہ محرم کے بعد اسلام آباد پر چڑھائی ملک کی موجودہ اندرونی اور سرحدوں پر بھارت کی پیدا کردہ صورتحال کو عمران خان کی تحریکِ انصاف کی احتجاجی تحریک سے اگر جوڑا جائے تو سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہوگی جبکہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ جب بھی ملک پر کوئی ایسی جنگی صورتحال تھوپی گئی ،عوام حکومت ، سیاسی پارٹیاں مشترکہ طور پر ملک کے دفاع کے لئے وطن عزیز کی افواج کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔تمام احتجاج اور ریلیاں ختم ہو جائیں گی۔ وطن کا دفاع اور سلامتی مقدم ہے۔ہاں حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی سیاسی دفاعی لائن کو بچانے کے لئے بھارتی قیادت اور اس کی حکمت عملی اپنانے سے گریز نظر آئے اور اپنے آپ کا بچاناہوگا۔ پانامہ لیکس، احتساب اور کرپشن پر کوئی دو رائے نہیں۔ وزیر اعظم کوپہل کرنی چاہےے۔
پچھلے دنوں اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میںبے نظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی کے شعبہ یورالوجی کے زیر اہتمام لیتھیسز کانفرنس کا انعقاد جو سرجن پروفیسر ڈاکٹر ممتاز اور ان کے رفقاءکے کاوش سے پایہ تکمیل تک پہنچی۔ کانفرنس میں جو کمی ابتدائی افتتاحی طور پر محسوس کی گئی وہ اعلیٰ سطح پر حکومتی عدم تعاون یعنی سکیورٹی عذر تھا۔ تین روزہ اس انٹرنیشنل کانفرنس کے انعقاد کا مقصد جہاں عوام میں گردے کی پتھری نکالنے کے لئے آگاہی اور اس کا عملی مظاہرہ تھا اور ساتھ تربیت کے لئے ورکشاپ بھی تھی۔ کانفرنس میں ممتاز بین الاقوامی ماہرین جن ممالک سے شریک ہوئے، ان میں برطانیہ ، آسٹریا، عوامی جمہوریہ چین، نیپال اور سعودی عرب وغیرہ تھے۔ سامعین کے لئے انٹری اوپن رکھی گئی تھی تاکہ گردے کی پتھری کے علاج کے عالمی شہرت یافتہ سرجنز کی نگرانی میں پتھری نکالنے کے جدید طریقہ سرجری بذریعہ وڈیو سلائیڈز کے جہاں مظاہرے کئے گئے وہاں بذریعہ ان تمام پروسیجرز کو سیٹلائٹ کی مدد سے دکھایا جاتا رہا۔ وڈیو لنک خطاب میں پروفیسر محمد شمیم خان ، نوزچ مولز،پروفیسر ڈاکٹر گوا ہوا زِنگ نے ورکشاپ کو طبی تاریخ میں اضافہ قرار دیا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر احمد سجاد اور ڈاکٹر مریم وغیرہ نے موجودہ منعقدہ کانفرنس کو انسانیت کی خدمت ہی قرار نہیں دیا بلکہ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز اوران کے رفقاءکی کاوش کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ۔ اس تین روزہ کانفرنس میں مہمانوں کی خاطر خواہ تواضع کا بندوبست کیا گیا۔ اس کانفرنس میں تمام فارماسیوٹیکل، نیشنل و ملٹی نیشنل کمپنیز کے سٹال اور ڈسپلے بھی موجود تھے۔موجودہ کانفرنس کے مقاصد اور نتائج کا حصول تبھی ممکن ہے جب تک اس جدید طریقہ علاج کے ثمرات عام آدمی کی دسترس تک ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...