سب سے پہلے آج مسجد نبوی کی تزئین و آرائش کے بارے میں پروفیسر محی الدین صاحب کی فراہم کردہ معلومات آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے معروف خطاط حافظ عبیدالرحمان سے حاصل ہیں، میں نے گزشتہ کالم میں مسجد نبوی کی ترکوں کے عہد میں کی گئی کشیدہ کاری کا تذکرہ کیا تھا جس پر محی الدین صاحب نے ایک مراسلہ کے ذریعے مسجد نبوی کی اب تک کی تزئین و آرائش کی تفصیلات فراہم کی ہیں جن کا ریکارڈ درست رکھنے کی خاطر تذکرہ ضروری ہے۔ ان کے بقول شاہ سعود کے آخری ایام اور شاہ فیصل کے ابتدائی ایام حکومت میں سعودی حکومت نے مسجد نبوی کے اندر کی ترک کشیدہ کاری کو، جو عملاً خطاطی ہے، ازسر نو تیار کرا کے اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ کام آٹھ 9 خطاط حضرات کو تفویض ہوا جن میں کچھ ترک اور مصری خطاط اور دو پاکستانی خطاط شامل تھے۔ پاکستان کے معروف خطاط حافظ عبیدالرحمان بھی اس ٹیم کا حصہ تھے جنہوں نے اس کام کے لئے سعودی حکومت کا پیش کردہ خطیر معاوضہ بھی وصول کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ ان کے بقول مسجد نبوی کی موجودہ خطاطی انہی کے ہاتھوں کی گئی ہے۔ مسجد نبوی کی تزئین و آرائش کا کام رات کے وقت کیا جاتا تھا جس کی خاطر رات کے وقت مسجد بند کر دی جاتی تھی۔ اس تزئین و آرائش میں وہی رنگ استعمال کئے گئے جو قبل ازیں ترک خطاطوں نے استعمال کئے تھے۔ اسی طرح غلاف کعبہ پر خطاطی کے آخری مراحل میں بھی حافظ عبیدالرحمان کو اپنے فن خطاطی کو اجاگر کرنے کا موقع مل گیا۔ ان کے بقول غلافِ کعبہ پر خطاطی کے لئے الشیخ عبدالرحیم امین کو ذمہ داری سونپی گئی تھی جن کا نام بیت اللہ کے دروازے پر بھی مرقوم ہے۔ خطاطی کے دوران وہ علیل ہو گئے تو انہوں نے غلافِ کعبہ پر خطاطی کا باقی ماندہ کام حافظ عبیدالرحمان سے کرایا۔ اس طرح غلاف کعبہ کی نیچے والی پٹی کے کونوں اور حجر اسود کے ساتھ ”یا رحمن، یا رحیم، یا قیوم“ کے الفاظ کی خطاطی کا حافظ عبیدالرحمان کو شرف حاصل ہوا۔
بے شک مسجد نبوی کی تزئین و آرائش کی ذمہ داری شاہ سعود اور شاہ فیصل نے بھی نبھائی مگر مسجد نبوی میں کشیدہ کاری کا کام خلافت عثمانیہ کے وقت ترک خطاطوں نے ہی سرانجام دیا تھا جوآج بھی دنیا بھر میں فنِ خطاطی کا نادر نمونہ نظر آتا ہے۔ پاکستان کے خطاط بھی یقیناً اپنا ثانی نہیں رکھتے اور کشیدہ کاری سے متعلق ملتانی آرٹ کے چار دانگ عالم میں چرچے ہیں۔ اگر مسجد نبوی میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل و دماغ کی تراوت کا باعث بننے والی خوبصورت خطاطی و کشیدہ کاری میں ہمارے ملک کے خطاط حضرات نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہوا ہے تو اس سے ملک اور ان کے خاندان کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ ان کی عاقبت سنورنے کا بھی اہتمام ہوا ہے۔ مدینہ منورہ کی مسجد قبا اور مسجد قبلتین میں بھی فن خطاطی کے نادر نمونے موجود ہیں جو دینِ اسلام کی نشاةِ ثانیہ کی عظمت و عزیمت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ مسجد قبا اس مقام پر تعمیر کی گئی جہاں حضرت نبی آخرالزمان سرور کائنات نے مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد یثرب (مدینہ منورہ) میں داخل ہوتے ہوئے پہلا پڑاﺅ کیا اور نماز ادا فرمائی تھی۔ جبکہ مسجد قبلتین کو القدس کے قبلہ اول سے خانہ کعبہ میں تبدیلی تک کے درمیانی عرصہ میں مسلم امہ کا قبلہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اس طرح مدینہ منورہ کے ان دونوں متبرک مقامات کی عزت و حرمت اہل ایمان کے دلوں میں آج بھی دوچند نظر آتی ہے۔ مدینہ منورہ میں تین روز کے مختصر قیام میں ان مقدس مساجد کی زیارت اور یہاں نوافل کی ادائیگی بھی ہماری زندگی کے یادگار لمحات کا حصہ بن چکی ہے اور سچ پوچھئے تو خاک طیبہ میں جو سرور و سکون میسر ہے، دنیا کی کوئی نعمت اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ حضور سرور کائنات کی ہجرت کے بعد عہد نبوی میں یثرب کی سرزمین پر جنگوں اور غزوات کی شکل میں رونما ہونے والے معرکہ ہائے حق کی یادگاریں بھی دل و نگاہ کی کشادگی کا باعث بنتی ہیں اور غار حرا کے مقام پر حضور سرور کائنات کے ہر امتی کا دل نچھاور رہتا ہے۔ ہمیں باسعادت فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران ان مقدس مقامات پر سرِ عقیدت جھکانے کے احسن انداز میں مواقع ملے تو ربِ کعبہ کے لئے شکرگزاری کے کلمات بے ساختہ زبان پر آتے رہے۔
نماز عشا کے بعد مسجد نبوی کا منظر دیدنی ہوتا ہے جو پوری مسلم امہ کے اجتہادی جذبے کے ساتھ ایک لڑی میں پروئے ہونے کی عکاسی کرتا ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے جید علماءکرام نماز عشاءکے بعد مسجد میں اپنے اپنے مکتبہ فکر کے حوالے سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرتے ہیں جو رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ چنانچہ جو برادر مسلمان فرقہ واریت اور فروعی اختلافات کی بنیاد پر اپنے ملک میں ایک دوسرے کے گلے کاٹتے فتنہ و فساد برپا کرتے نظر آتے ہیں وہ مسجد نبوی میں بھی اور خانہ کعبہ میں طواف کے دوران بھی امت واحدہ کا مثالی نمونہ بنے نظر آتے ہیں۔ ان کے مکتبہ فکر کے علماءکرام کو مسجد نبوی کے اندر اپنے مکتبہ فکر کے مطابق درس و تدریس اور تبلیغ دین کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور کسی اختلافی بات پر کسی دوسرے کا خون جوش نہیں مارتا۔ خانہ کعبہ میں بھی امتِ واحدہ طواف کرتی اور نوافل ادا کرتی ایک لڑی میں پروئی نظر آتی ہے اور کسی کے دل میں کسی کے ٹخنے سے اوپر یا نیچے کسی اختلافی نکتہ نظر سے دھیان مارنے کی سوچ پیدا نہیں ہوتی۔ ہم حضور سرور کائنات کے امتی کیا اپنے روزانہ کے معمولات میں بھی ایسے سلیقے سے نہیں رہ سکتے؟ ”تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔“ ایسا منظر جو در ربِ کعبہ پر اور درِ سرور کائنات پر امن و عافیت کی صورت میں نظر آتا ہے، اگر ہماری زندگیوں کے معمولات میں بھی بس جائے تو امتِ واحدہ سے کوئی بڑی قوت بھلا اس کائنات میں ہو سکتی ہے۔ یہی تو دشمنانِ اسلام کا دھڑکا ہے کہ امتِ واحدہ کہیں فی الواقع امتِ واحدہ کے قالب میں نہ ڈھل جائے کیونکہ یہ صورت تو پوری کائنات کے امت واحدہ کے آگے زیر ہونے کی ہو گی جس میں دشمنان اسلام کا ایجنڈہ پر نہیں مار سکتا۔ اسی لئے تو وہ امتِ واحدہ کو انتشار کا شکار کرنے کے تمام حربے آزماتے رہتے ہیں ۔وہ ٹکڑوں میں بٹے ہونے کے باوجود مسلم امہ کو منتشر کرنے کے ایک ایجنڈے پر متحد ہیں جبکہ ہم امتِ واحدہ ہونے کے باوجود دشمنانِ اسلام کے اس ایجنڈے کے اسیر ہو جاتے ہیں اور دنیا بھر میں اپنا تماشہ بنا لیتے ہیں۔
ہم خاک طیبہ کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں۔ ربِ کائنات کے درِِ اقدس پر لبیک اللھم لبیک کا ورد کرتے جاتے ہیں مگر ایک دوسرے کے لئے بغض، عناد دلوں میں پالے رکھتے ہیں۔ دائرہ اسلام میں رہتے ہیں مگر اس دائرے میں موجود دوسرے کلمہ گو بھائیوں کے لئے کفر کے فتوے بانٹتے پھرتے ہیں۔ ”کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔“ اگلی سطور میں انشاءاللہ سعودی معاشرت اور ڈسپلن کے کچھ پہلوﺅں پر روشنی ڈالوں گا۔