بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتیں حکمران پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ کنٹرول لائن پر دراندازوں کیخلاف بھارتی فوج کے مبینہ سرجیکل آپریشن سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اترپردیش اور پنجاب کے کئی قصبوں اور شہروں میں گذشتہ دنوں بی جے پی کے مقامی رہنماوں اور اسکے حامیون کے ذریعے بڑے بڑے بینر لگائے گئے، اس میں سرجیکل آپریشن کیلئے وزیراعظم مودی کی جرات کی تعریف کی گئی۔ بی بی سی کے مطابق کئی بینرز میں مودی کو ہندووں کے دیوتا رام کے طور پر دکھایا گیا۔ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کو راون کی شکل میں پیش کیا گیا۔ ان پوسٹروں اور بینروں میں وزیراعظم کو اس آپریشن کیلئے مبارکباد دی گئی۔ ان دونوں ریاستوں میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونیوالے ہیں اور یہ انتخابات مودی کی جماعت کے مستقبل کے انتخابی منصوبوں اور کامیابیوں کےلئے انتہائی اہم ہیں۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی کو لتاڑتے ہوئے کہا کہ وہ اوڑی میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے خون کی دلالی کررہے ہیں۔ سرجیکل آپریشن پر تنازع وزیر دفاع منوہر پریکر کےاس بیان سے شروع ہوا کہ مودی کی حکومت کے جرات مندانہ فیصلے سے یہ آپریشن ممکن ہوسکا۔ اسکے جواب میں کانگریس نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ماضی میں کانگریس کی حکومتوں کے دوران اس طرح کے سرجیکل آپریشن کئی بار ہوچکے ہیں لیکن اس وقت کی حکومتوں نے ان کارروائیوں کا کو عام نہیں کیا کیونکہ بقول انکے یہ آپریشن سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں کیے گیے گئے تھے۔ مبینہ سرجیکل سٹرائیکس پر بھارت کے اندر مچی اس سیاسی جنگ میں ٹی وی چینلز سب سے آگے ہیں۔ ایک چینل نے گذشتہ دنوں سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کا انٹرویو نشر ہونے سے روکدیا۔ اس چینل نے اعلان کیا گیا کہ وہ ایسا کوئی سیاسی بیان نہیں نشر کریگا جس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہو۔ چدمبرم نے اس انٹرویو میں کشمیر کے حوالے سے حکومت کی ہینڈلنگ پر تنقید کی تھی۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسی چینل نے چند گھنٹے بعد بی جے پی کے صدر کی پریس کانفرنس براہ راست نشر کی جس میں بنیادی طور پر انہوں نے سرجیکل سٹرائیکس کے حوالے سے مخالفین کو ہدف بنایا تھا۔ بعض چینل کے اینکر اور پیشکار حب الوطنی کے جذبے میں پروگرام کی ابتدا اور اختتام پر ”جے ہند“ کا نعرہ بلند کرنے لگے ہیں۔ ایک اینکر نے سٹوڈیو میں باقاعدہ وار روم بنا کر فوجی وردی جیسے کپڑے پہن کر پروگرام پیش کیا۔ ان پروگراموں میں جو بھی حکومت کے تصورات سے اتفاق نہیں کرتا انھیں اینٹی نیشنل یعنی ملک دشمن قرار دیدیا جاتا ہے۔ بھارتی چینلوں اور سوشل میڈیا پر جارحانہ قوم پرستی کی ایک لہر چلی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سرجیکل سٹرائیکس نے یک لخت سارے مسئلے حل کر دیئے ہوں۔ قوم پرستی کی اس بحث میں اس پہلو پر کوئی بات نہیں ہو رہی کہ سرجیکل سٹرائیکس سے کیا مقصد حاصل ہوا ہے۔ کیا اب حملے رک گئے ہیں؟ اس آپریش کے بعد بھی تقریباً روزانہ کہیں نہ کہیں دہشت گردوں کے حملے ہو رہے ہیں۔ کیا پاکستان اس آپریشن سے ڈر گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو آخر جوابی کارروائی کے اندیشےسے سرحدی علاقے خالی کیوں کرائے گئے اور جوابی کارروائی کا جواب دینے کے لیے چوکسی کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے پاکستان سے تعلقات اب مزید خراب ہو چکے ہیں اور بات چیت کے سارے راستے بند ہیں۔ یہ تنازع جہاں سے شروع ہوا تھا وہاں کی صورتحال اب بھی جوں کی توں ہے۔ انڈیا کے زیرقبضہ کشمیر اب بھی کشیدگی اور ٹکراو کی گرفت میں ہے۔ وادی میں ایک بچے کی موت ہوئی ہے اور جنازے کے ساتھ بھی مظاہرہ ہوا ہے۔ بھارت میں ان حقائق پر بھلے ہی بحث نہ ہو لیکن ان زمینی حقیقتوں کو فراموش تو نہیں کیا جاسکتا۔