آئین میں ختمِ نبوت کے بارے میں جو شقیں موجود ہیں ان کے پیچھے ایک عظیم الشان جدو جہد اور ہزاروں پاکستانی مسلمانوںکی قربانی کی ایک داستان چھپی ہوئی ہے۔ آئین کے اس حصے کے ایک ایک لفظ پر خوب غور و غوض کیا گیا۔اس کو کسی چالاکی، سیاست یا عالمی ایجنڈے کے طور پر چھیڑنا انتہائی مہلک بھی ہو سکتا تھا۔ کمپیوٹر کے دور میں ن لیگی وزیرِ قانون نے کاغذ لہرا لہرا کر پہلے یہ کہا کہ کوئی تبدیلی ہم نہیں لائے یہ پروپیگنڈا ہے۔پھر اچانک سپیکر اسمبلی کہنے لگے ٹائپنگ کی غلطی ہے۔ ن لیگ کی سیٹ پر منتخب عالم فاضل ساجد میر مخالفین کو مناظرے کے دعوت دے بیٹھے۔وہ یہ بھی بھول گئے کہ جمیعت اہل حدیث کی ختم نبوت تحریک میں بڑی قربانیاں تھیں۔ مثال کے طور پر میاں فضل حق،مولانا عبدالقادر روپڑی، مولانا صدیق و مولانا شریف اشرف جیسے لوگوں کے نام تاریخِ جد وجہد میں موجود ہیں۔ یہ ن لیگ کا پائلٹ پراجیکٹ تھا جو کامیاب نہ ہو سکا۔ تاہم قوم ان سب لوگوں کو سلام پیش کرتی ہے جو انتہائی جرا¿ت سے بولے اور ملک گیر اقدامات کیلئے تیار تھے؛
سلام ان پر جو ختمِ نبوت کے تھے شیدائی
سلام ان پر جن کی جرا¿تِ رندانہ کام آئی
نوائے وقت اور جسارت نے 1974 کے بل میں عوام کی اعلیٰ ترین نمائندگی کی۔ آج شیخ رشید اور ظفراللہ جمالی نے اسمبلی میںدل کی تہہ سے نکلے جذبات کا اظہار کیا۔ جمالی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بھی وزیر اعظم کی سیٹ چھوڑی تھی ۔ نواز شریف سے یہ عہدہ واپس لیا گیا تو یہ کوئی وراثت تو نہیں تھی۔ اسحاق ڈار ملزم ہے اسے عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے۔ ظفر اللہ جمالی نے یہ بھی کہا کہ اگر ان سمبلیوں نے ایسے ہی بل پاس کرنے ہیں تو میری موت سے پہلے ان کو موت آ جانی چاہئے۔کتنا دکھ اور افسوس ہے ان کے ان الفاظ میں!! اقبالؒ نے جاوید نامہ میں دو جھوٹے نبیوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک ایران سے بہااللہ اور دوسرے قادیان سے غلام احمد۔ پہلے نے شریعتِ محمدی پر وار کیا اور حج سے جان چھڑائی اور دوسرے نے جہاد کو بیکار قرار دیکر اپنا رستہ جدا کر لیا۔آج قادیانیوں کا مرکز وہی لندن ہے جو ہمارے سیاستدانوں کا گڑھ ہے۔ کتنی بدنصیبی ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا وہی ایجنڈا ہے جو ملک دشمنوں کا ہے۔ 1992 میں ن لیگی اہم رکن لندن میں قادیانیوں کے اجتماع میں شریک ہوا۔ یہ شخص پاکستان میں چار سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔ نہ جانے اور کتنے لوگ انہی میں سے موجود ہیں۔ پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں صاف نظر آتی ہیں۔ معاشی دہشت گردی اسی کا نام ہے کہ قرضے ان پراجیکٹس پر لئے جائیںجہاں کرپشن اورکمیشن کا راج ہو اور وہ پراجیکٹس اصل مدت سے کئی سال بعد ختم ہوں جس کا نتیجہ کئی گنا زیادہ قیمت ہے۔پاکستان کو کمزور کرنے کی دوسری سازش اس کو فوجی لحاظ سے کمزور کرنا ہے۔ ایک تو فوج کا امیج خراب کیا جانا اور دوسرا نیوکلر ہتھیار پر قبضہ کرنا یہ عالمی ایجنڈا ہے۔ شریفین درجہ بدرجہ اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ جس طرح آرمی کے ادارے کو مستحکم کرنا آرمی چیف کا کام ہے اسی طرح ملکی اداروں میں رول آف لاءقائم رکھنا وزیر اعظم کا کام ہے۔ اس وقت عملی طور پر کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا۔ وزیر اعظم کی ناک کے نیچے اسلام آباد میں قائد اعظم کے نام سے قائم کی گئی یونیورسٹی قائد کے نام پر دھبہ بن چکی ہے۔ یونیورسٹی میں علاقائی طاقتور یونینز بنی ہوئی ہیں اور کئی دنوں سے یونیورسٹی بندہے۔ منشیات اور غل غپاڑہ روزانہ کا معمول ہے ۔ اسلام آباد کے سکولوں میں بھی منشیات کی خبر ایک عرصے سے چل رہی ہے۔ یہ مسلہ شہروں سے گاو¿ں تک پھیلتا جا رہا ہے۔ انتہائی معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ پی سی بھوربن کا گرین گیٹ مغرب کے بعد شراب فروشی کا اڈا بن جاتا ہے۔گاو¿ں والے پریشان ہیں کہ اس سے مقامی آبادی متاثر ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف پمس اسلام آباد کے عوامی ہسپتال میں کئی دنوں سے ہڑتال ہے۔ میںذکر کر چکی ہوں کہ وہاں وہیل چیرز بھی خیرات کی ہیں۔ کل ایک قومی اسمبلی کے ممبر بیمار ہو گئے تو ان کیلئے وہاں ونٹیلیٹر نہیں تھا۔ عوام کو وہاںسے کیا ملتا ہوگا۔ یہ ظلم دیکھئے کہ حکمران اور ان کی آل و اولاد اپنی کھانسی کا علاج بھی لندن سے سرکاری خرچ پر کراتی ہے چاہے نا اہل ہی کیوںنہ ہو جائے۔عوامی ہسپتالوں پر لکھنا شروع کیا جائے تو کتابیں بھر جائیں۔ ہسپتال سبزی منڈی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ایسی ایسی بیماریاں ہیں کہ خدا کی پناہ! ڈاکٹروں کی فیسیں اور نئے نئے ٹسٹ عوام کیلئے عذاب ہیں۔ یہ مسلہ نئے ہسپتال بنانے سے بھی حل نہ ہوگا۔ اس کی جڑ کو پکڑنا ہوگا۔ جس ملک میں خوراک زہر کی مانند ہو۔ ایک کلو آپ کو خالص دودھ نہ مل سکے بلکہ فیکٹریوں میں شیمپو، تیل، پوڈر وغیرہ سے بنایا جاتا ہو وہاں بیماریاں کیوں نہ ہونگی۔ مرغیاں حرام خوراک سے راتوں رات تیار کی جا رہی ہوں۔ فروٹ کمیکل زدہ ہوں، پانی سیوروالا ہو وہاں کھیل کے میدان کم اور ہسپتال بھرے ہونگے۔حکومت کو اپنے اداروں کو جدید طور طریقوں چلانا چاہئے۔ کسی بھی محکمے کی کارکردگی بغیر بیک فیڈ کے نہیں بڑھ سکتی۔ عوامی شکایات اور کسٹمر سروس کے علاوہ اعلیٰ افسران تک رسائی ہر شخص کی ہونی چاہئے۔ ای میل کا استعمال اور موبائل فون کے ذریعے لوگوں کے مسائل پر نظر رکھنا ّسان ہو سکتا ہے۔ سٹاف کے ہرممبر کی سالانہ تربیت لازمی قرار دی جائے تاکہ ان کی سوچ میں وسعت پیدا ہو سکے۔ کسی دفتر کا کوئی رکن یہ جذبہ نہیں رکھتا کہ لوگوں کے ٹیکس سے اسے تنخواہ ملتی ہے اور اس کام لوگوں کی خدمت ہے۔ ہر شخص رشوت کے راستے پر عام لوگوں کو لگا دیتا ہے۔عوام دفتروں میں رلتی رہتی ہے۔ عدالتی نظام تو انتہائی فرسودہ، پیچیدہ، مہنگا ، لمبا اور مشکل ہے۔ حکمران اپنے لئے آئین کو بدل دیتے ہیں لوگوں کیلئے انصاف کا نظام بہتر نہیں ہو سکتا؟