نظریہ ٔپاکستان سے نظریۂ ضرورت تک

Oct 09, 2017

عتیق انور راجہ

پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔تحریک پاکستان کا سبب کوئی ایک واقعہ نہیں تھا ۔بلکہ قیام پاکستان کے پیچھے ہزاروں وجوہات تھیں۔ہندووں نے بار ہا یہ بات ثابت کی کہ وہ مسلمانانِ ہند کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنا اور اپنی مذہبی رسومات کا ادا کرنا مشکل بنایا جانا ایک عام فعل تھا۔گائے کی قربانی سے مسلمانوں کو تب بھی منع کیا جاتا تھا ۔مگر اُس وقت مسلمانوں میں غیرت ِ دیں زندہ تھی اس لیے اس وقت کے مسلمانوں نے اپنے مذہبی فریضے کو ادا کرتے وقت ہندووں کی بات ماننے سے ہمیشہ انکار ہی کیا۔ ایک وقت آیا جب مسلمانوں کیلئے بڑی عید کے موقع پر گائے کی قربانی نہ کر نے کے لیے شدید دباو بڑھا دیا گیا ۔مگر اس دباو کا سامنا کرنے کیلئے امام اہلِ سنت امام احمد رضا بریلوی نے واضح کیا کہ ویسے تو جس مسلمان کا جو جی چاہے قربانی کرے ,مگر اس وقت چونکہ گائے قربان کرنے سے منع کیا جارہا ہے۔اس لیے اس سال ہم ہر صورت گائے کی قربانی ہی دیں گے۔ایسے کئی واقعات تھے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ اس خطے میں مسلمانوں اور ہندووں کا ایک جھنڈے تلے رہنا بہت مشکل ہوگا ۔مسلمانانِ ہند نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر بالاآخر یہ آزاد ملک حاصل کیا ۔پاکستان اور ہندوستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاستیں کہلائیں۔یہ عجیب بات ہے کہ لاکھوں جانیں قربان کر کے حاصل کیا گیا ملکِ پاکستان بہت سالوں تک اپنا واضح قانون ہی نہ بنا سکا۔حالانکہ قائد سے بار بار پوچھا جاتا تھا کہ پاکستان کا قانون کیا ہوگا ۔تو قائد اعظم بڑا واضع جواب دیا کرتے کہ ہم ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جہا ں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے سب کو برابر مواقع مل سکیں ۔ایک موقع پر قائد نے یہ کہہ کر ہمیشہ کیلئے قیام پاکستا ن اور آئیں پاکستا ن سے متعلق سب غلط فہمیوں کا خاتمہ کردیا ۔آپ نے فرمایا مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا ۔پاکستا ن کو اسلام کے نام پر حاصل کیا جارہا ہے ۔اور اسلام کا نظامِ زندگی چودہ سو سال پہلے اللہ پاک نے قرآن مجید میں بیاںکردیا تھا۔اور اس کی تشریح ہمارے آقا حضرت محمدؐ نے اپنی عملی زندگی پیش کردی۔ آپؐ نے زندگی کے ہر روپ میں ہمارے لیے مثال قائم کی ہے۔ اس بیان سے واضح ہوگیا تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام مکمل طور پہ نافذ ہوگا۔

آج اگر ہم ہندوستا ن میں بسنے والی اقلیتوں کا حال دیکھ لیں تو ہمیں قیام پاکستان اور دو قومی نظریے کا مطلب کسی سے پوچھنا ہی نہ پڑے ۔مگر یہ بھی ایک ستم ہے کہ ہمارے سیاسی راہنما اپنی ذاتی دوستیوں اور کاروبار کے فروغ کیلئے ہندو پاک کے بیچ بارڈر کو قبول نہیں کر پا رہے ہیں ۔ہمارے سابق وزیر اعظم کئی بار فرما چکے ہیں کہ ہم ایک ہی علاقے کے رہنے والے ایک جیسے لوگ ہیں ۔اور آج کل موجودہ وزیر خارجہ بھی کچھ ایسے ہی بیانات دے کے دشمن ِ دیں و ملت کو خوش کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ ہمارے سیات دانوں نے نظریہ پاکستان کو پیچھے کر کے اپنے نظریہ ضرورت کو آگے کر لیا ہے ۔یہ میرے ملک کا المیہ ہے کہ تقریباً ہر سیاست دان کا دامن کرپشن ,اقربا پروری سے لتھڑا پڑا ہے ۔اقتدار کے مزے لوٹنے والے تقریباً سبھی صاحبان کے دامن پہ داغ نظر آتے ہیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت یہ سب اسمبلیوں میں جا کے اپنے مفادات کا بل اکثریت سے پاس کر وا لیتے ہیں ۔ہر سال ہم سنتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے معزز ارکان اسمبلی کی تنخواہوں کا بل بنا کسی رکاوٹ کے پاس ہوگیا ہے ۔ ہمارے معز ز ارکان اسمبلی کیلئے اسمبلی جانا بالکل ضروری نہیں ہے مگر عوامی خادم کا سرٹیفکیٹ لے کے جو مراعات ملتی ہیں وہ سب برابر لیتے ہیں ۔اپنی مرضی کا کوئی قانون ہو ہمارے معزز راہنما مل کے پاس کر والیتے ہیں ۔باہر عوام کو بدھو بناتے ہیں اسمبلی اور سینٹ میں جا کے شخصی حاکمیت کی راہ میں آنے والے سبھی کانٹے ہٹانے کی مشترکہ کوشش کرتے ہیں۔عدالتوں سے میاں نواز شریف کو نااہل کیا جاتا ہے ۔ان سے منصبِ اقتدار چھین لیاجاتا ہے ۔اب دنیا میں کسی نااہل ہونے والے بندے کو کوئی پارٹی اپنے ساتھ ہی نہیں رکھنا چاہتی ۔مگر ہمارے ملک میں جمہوریت کا مطلب چند خاندانوں کی مستقل غلامی بن چکا ہے ۔کسی سیاسی راہنما میں جرات ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے پارٹی سربراہ کے خلاف بات کرسکے ۔عمران خان نے نواز شریف کو نااہل کروانے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا تھا ۔اور یہ عمران خان کی کامیابی ہے مگر جب سینٹ میں نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کا قانون پاس کروانا تھا تو تحریک انصاف کے سینٹر وں نے اس بل کے خلاف ووٹ دینے کی زحمت نہیں کی ۔کیونکہ عمران خان جانتے ہیں کہ نا اہلی کی تلوار ان کے سر پہ بھی لٹک رہی ہے ۔وہ بھی کسی وقت نااہل ہوسکتے ہیں ۔اس لیے ان کے سینٹروں نے میاں نواز شریف کے پارٹی سربراہ بننے میں قانونی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔صادق و امیں کا شور کرنے والوں نے اپنا ووٹ مخالفت میں ڈالنا بھی گوارا نہ کیا ۔ہمارے سیاست دانوں کے دامنوں پہ لگے دھبے انہیں دشمنانِ دین و ملت کے ہاتھوں میں کھیلنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔آج کل قومی اسمبلی میں پاس ہونے والے بل پہ بہت بحث ہورہی ہے ۔حکومت نے کوشش کی تھی کہ اپنی عددی برتری کے چلتے ناموس رسالت پہ سمجھوتا کر لیا جائے ۔دشمن دیں کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کے قانون میں نرمی کر لی جائے ۔مگر عقل کے اندھے یہ بھول گئے تھے کہ پاکستانی قوم ہر ظلم برداشت کر سکتی ہے ۔ہر طرح کا ناجائز ٹیکس دے کے حکومتی عیاشیوں کیلئے خزانہ بھر سکتی ہے ۔روز اپنے ہاتھوں اپنے بے گناہ بچوں کی لاشیں اٹھا سکتی ہے ۔مگر پاکستان کے مسلمان اپنے آقاؐ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے ۔اقتدار کے ایوانوں میںبیٹھنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ملک خالصتاً اسلامی اصولوں کی بنیاد پہ قائم ہوا تھا ۔اسلامی نظام کی بنیاد ہی نبی اکرمؐ کی محبت سے شروع ہوتی ہے ۔اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے کمزور حکمرانوں سے ایسی باتیں منوانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔جو بظاہر کوئی بھی مسلمان نہیں مان سکتا۔آج ضرورت ہے کہ ہماے سیاست دان نظریہ ضرورت چھوڑ کے نظریہ پاکستا ن کا اصل مطلب جان لیں۔اور یہ بات پلے سے باندھ لیں کہ ایک مسلمان کیلئے حضرت محمد ؐ کی محبت سے بڑھ کے اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی لیے مسلمان قوم کا ہر فرد آقاؐ کی ناموس پہ جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے ۔اور دشمنانِ دین کو یہ واضع پیغام دے جاتا ہے ۔کہ
عزت سے کیوں نہ مر جائیں نامِ محمدؐ پر
اس دنیا سے ہمیں اک روز ویسے بھی تو جانا ہے
٭…٭…٭…٭…٭…٭

مزیدخبریں