لندن (بی بی سی رپورٹ )یہ پاکستانی کرکٹ کا پرانا انداز ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کی پرفارمنس پر ون ڈے میں سلیکشن کردیا جاتا ہے اور ون ڈے کی پرفارمنس پر ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنادی جاتی ہے۔یہ بھی ہم بار بار دیکھتے آئے ہیں کہ ہر دورے پر ایک نیا چہرہ ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے گھر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے یا پھر اسے میدان میں ہی نہیں اتارا جاتا۔سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ ٹیم کا سلیکشن ہوا تو اس میں سلیکٹرز نے تجربہ کار یاسر شاہ کے علاوہ لیفٹ آرم سپنر محمد اصغر اور آف سپنر بلال آصف کو بھی سکواڈ میں شامل کیا لیکن یہ دونوں بولرز دونوں ٹیسٹ میچوں میں موقع کے منتظر ہی رہے۔پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور بولنگ کوچ اظہر محمود کا اس سیریز کے دوران یہی اصرار رہا ہے کہ انھوں نے دونوں ٹیسٹ میچوں میں ٹیم کی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے میدان میں ٹیم اتاری ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اگر کنڈیشنز کے مطابق دونوں ٹیسٹ میچوں میں صحیح سلیکشن ہوتا تو کیا پھر بھی یاسر شاہ دونوں ٹیسٹ میچوں میں پچاس پچاس سے زائد اوورز کراتے ؟اگر یہ صحیح سلیکشن تھا تو پھر کپتان کو حارث سہیل، اسد شفیق اور شان مسعود کے ہاتھوں میں گیند تھمانے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟کیا دوسرے اینڈ سے ایک ریگولر سپنر یاسر شاہ کا بوجھ بانٹ نہیں سکتا تھا۔اظہرمحمود سکواڈ میں موجود محمد اصغر اور بلال آصف کو موقع نہ دینے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ دونوں کوالٹی کے سپنرز نہیں ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کوالٹی کے سپنرز نہیں ہیں تو انھیں کیوں ٹیم میں منتخب کیا گیا؟محمد اصغر پچھلے کچھ عرصے سے ٹیم کے ساتھ ساتھ ہیں تو کیا وہ اسی بات کی وجہ سے اپنا ٹیسٹ کیریئر شروع نہیں کر سکیں گے کہ وہ کوالٹی سپنر نہیں ہیں؟بلال آصف کو سلیکٹ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ سری لنکن ٹیم میں چند لیفٹ ہینڈڈ بیٹسمین ہیں لہذا ان کے خلاف آف سپنر موثر ثابت ہوسکتا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں کہ جسے سلیکٹرز نے سلیکٹ کیا ہو کپتان اور کوچ نے بھی اس پر اعتماد ظاہر کیا ہو۔اگر کھلانا ہی نہیں ہے تو پھر ایسے کھلاڑیوں کو سلیکٹ کیوں کیا جاتا ہے؟