شاہد لطیف
نسیم نازلی المعروف مالا ہمارے ملک کی ایک بڑی اور اپنے وقت کی کامیاب گلوکارہ رہی ہیں ۔ پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ ان کے گائے ہوئے بعض گیت و غزل اب بھی بہت مقبول ہیں اور ری مِکس کرنے والے نئے فنکاروں کے نغمے نجی ٹیلی وژن چینلوں اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی فنکارانہ شروعات کے سلسلے میں مالا بہت خوش قسمت ثابت ہوئیں۔تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ مالا کی گلوکاری کی ابتدا 1950 سے شروع ہوئی لیکن اُن کا کوئی قابلِ ذکر فلمی ےا غیر فلمی گیت نہیں ملا۔اتنا معلوم ہوا کہ مالا کے ایک قریبی عزیز مرزا سلطان بیگ عر ف نظام دین ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک طویل عرصہ شام کا پروگرام ’ جمہور کی آواز‘ کرتے رہے۔ قیاس ہے کہ مالا اور اُن کی بڑی بہن شمیم نازلی جو پاکستان کی پہلی فلمی موسیقار ہیں، دونوں ان کے ساتھ ریڈیو پاکستان گئیں اور وہیں سے موسیقی کے شوق نے تیزی پکڑی ۔مالا کو گانے اور شمیم کو موسیقی کا شوق تھا۔ پھر ریڈیو پاکستان لاہور ہی وہ جگہ بنتی ہے جہاں اُس وقت کے ایک با رسوخ موسیقارغلام احمد چشتی المعروف بابا جی اے چشتی نے ان دونوں کو سنااور پنجابی فلم ” آبرو (1961 )کے لئے مالا کو منتخب کر لیا۔انہوں نے اُس کی آواز میں 2 عدد گیت ریکارڈ کرائے۔یہ فلم ناکام رہی لیکن مالا کی قسمت کا تارہ چمک اُٹھا۔
اُس وقت کے کامیاب فلمساز و ہدایتکار انور کمال پاشا نے مالا کو مشورہ دیا کہ وہ اُردو فلموں کے لئے کوشش کرے۔ابھی تک مالا ، نسیم کے نام سے پہچانی جاتی تھی لیکن انور کمال پاشا نے 1962 میں نسیم نازلی کا نام بدل کر مالا رکھ دیا کیوں کہ نسیم بیگم پہلے ہی پلے بیک فنکارہ موجود تھیں۔ نام کی یہ تبدیلی اُردو فلم ” سورج مکھی“ (1962 ) کی ریکارڈنگ کے وقت کی گئی۔ مذکورہ فلم کے موسیقار ماسٹر عبداللہ
( موسیقار ماسٹر عنایت حسین کے چھوٹے بھائی )کی موسیقی میں مالا کے گیت : ’ آئے رے جوبنوا پہ رنگ سکھی ....‘ اورگلوکارباتش کے ساتھ دوگانا : ’ او گورے راجہ نظر شرمائی رے.... ‘ ریکارڈ ہوئے۔واضح ہو کہ ماسٹر عبداللہ کی بحیثیت موسیقار یہ پہلی فلم ہے۔ پھر 1963 میںماسٹر عنایت حسین نے ادا کار اور فلمساز الیاس کاشمیری اور ہدایت کار شریف نیّر کی فلم ” عشق پر زور نہیں“ کے لئے مالا سے ایک المیہ گیت ریکارڈ کروایا۔ اس گیت نے حقیقی معنوں میں مالا کو مالا بنا دیا۔وہ گیت یہ ہے:
دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے
بڑی مہنگی پڑے گی یہ جدائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس گیت میں اداسی، ملال اور شدت کا رنج سائیں اختر حسین کی المناک تانوں نے پیدا کیا۔بے شک ماسٹر عنایت حسین کی محنت اس گیت سے عیاں ہے۔یہ ایک ایسا گیت ہے جو بلا شک و شبہ روزانہ پاکستان کے شعر و شاعری والے رات گئے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں سے سننے کو ملتا ہے۔میں نے خود ایک سے زیادہ مرتبہ امریکہ میں اردو اور ہندی ریڈیو پروگروموں میں اس گیت کو سنا ہے۔ میرے پاس ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے جب لاس اینجلس، کیلی فورنیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے ریڈیو پروگرام ’ سنگم‘ میں مذکورہ گیت نشر کرنے کے بعد فلم اور موسیقار کا نام غلط لیا اور سائیں اختر حسین کا نام نہیں لیا ۔خاکسار نے وہاں فون پر تصحیح کی ۔ اگلے گیت کے بعد اس کم تر کی ریڈیو والوں سے گفتگو نشر بھی کی گئی۔اس گیت کو امر بنانے میں قتیل شفائی کے بولوں کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔
مالا کے کچھ مشہور گیت:سپنوں میں اُڑی اُڑی جاﺅںجا رے بیدردی تو نے کہیں کا ہمیں نہ چھوڑا چنّی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں رحم کرو ےا شاہِ دو عالم غمِ دل کو اِن آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے
یہ سماں پیارا پیارااکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم یہ سماں موج کا کارواں مجھے آئی نہ جگ سے لاج میں اتنے زور سے ناچی آج کس نے توڑا ہے دل حضور کا
1960 کی دہائی میں مال کے احمد رشدی کے ساتھ گائے ہوئے دوگانے چھائے رہے۔ واضح ہو کہ مالا نے احمد رشدی کے ساتھ سب سے زیادہ دوگانے ریکارڈ کروائے جن میں سے زیادہ تر سُپر ہٹ ثابت ہوئے۔
مہدی حسن کے ساتھ بھی مالا کے دوگانے مقبول ہوئے جیسے جعفر بخاری کی فلم ” سماج“ (1974 ) میں اے حمید کی موسیقی میں حبیب جالب کا یہ دوگانا: ’ چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں، دنیا کے رسم و رِواج توڑ دیں‘ تب بھی مقبول تھا اور اب بھی ہے۔
میرے مطابق مالا کے بہترین گیتوں میں سہیل رعنا کی موسیقی میں مسرور انور کا لکھاہوا فلم ” ارمان“ ( 1966)پہلے نمبر پر ہے۔ گیت کی دھن، اُس کے بول پھر بولوں اور دھن سے انصاف کرتے ہوئے مالا کی ادائگی ....واقعی یہ گیت آج بھی دل پر اثر کرتا ہے۔
مالا کو بہترین گلوکارہ ہونے کے دو مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل ہوئے۔پہلا 1963 میں فلم ” عشق پر زور نہیں“ پر اور دوسرا 1965 میں فلم ” نائلہ“ پر۔
70 کی دہائی میں پاکستانی فلمی افق پر نئی گلوکارائیں طلوع ہو نے لگیںاور مالا بتدریج مالا پس منظر میں چلی گئیں۔
مالا بیگم نے کبھی بھی بہت زیادہ سوشل لائف نہیں گزاری ۔فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعد وہ گھر کی ہو کر رہ گئیں۔ آخری عمر میں معاشی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔بہرحال وہ ایک خوبصورت زندگی گزار کر صرف 50 سال کی عمر میں ہی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔