مصر کے سابق صدر انوار السادات اپنی انتم کہانی ’’شناخت کی تلاش‘‘ میں تحریر کرتے ہیں ۔ ’’تاریخ کا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور تاریخ آگے بڑھتی جاتی ہے۔ اسے روکنے کیلئے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ آپ جو کر سکتے ہیں وہ یہ کہ آپ کھیون ہار اور ناخدا بن کر اسے اپنی قابو میں رکھ لیں، کوشش کریں کہ وہ یقینی طور پر درست سمت میں جا رہا ہو‘‘۔
چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے ڈیمز کے معاملہ میں تاریخ کے دھارے کو ناخدا بن کر اپنے قابو میں کر کے درست سمت میں رواں کیا ہے۔ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے متعلق فیصلے کر کے ڈیم فنڈ قائم کیا اور انکی تعمیر اپنی سرپرستی میں جاری رکھنے کا عزم کیا۔ قوم نے اس پر لبیک کہا مگر ڈیم مخالفین کھل کر سامنے ظاہر ہوئے۔ 1960ء کی دہائی میں چین کے عظیم رہنما چیئرمین ماؤ زے تنگ نے میڈیا پر سنسر ختم کیا اور عوامی رائے کے اظہار کی کھلی اجازت دے دی۔ اس کے بعد تین دریاؤں پر جہاں وہ ساتھ ساتھ پہاڑوں کی تنگ گھاٹیوں میں سے گزرتے ہیں ان پر ’’تھری گورجز‘‘ ڈیم تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ ایک برس تک چین کے انجینئرز نے اس کی حمایت اور مخالفت میں مضامین اور کالم لکھے۔ اسکے بعد آزادی اظہار پر دوبارہ پابندی لگا دی۔ پھر چن کر ڈیم کے کٹر مخالفین (80) انجینئرز پر مقدمہ چلا دیا اور انہیں سخت سزائیں دیں۔ کچھ کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اسکے بعد ڈیم کی تعمیر پر کام کے آغاز کا حکم دیا۔ اکیلے تھری گورجز ڈیم کی ہائیڈل پاور سے 18500MW میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہے اور ڈیم کی وجہ سے سیلاب سے بچاؤ ہوا۔ زراعت کیلئے پانی استعمال کر کے چین کے عوام میں خوشحالی آئی اور ملکی معیشت میں خوشگوار اضافہ ہوا۔ وطن عزیز میں چند سیاست دان اور نام نہاد قوم پرست بڑھکیں مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم بنانا بے سود ہیں وغیرہ اور کہتے ہیں ڈیم بنانے نہیں دیں گے۔ دوسری طرف تھر اور چولستان کے باسی صدیوں سے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی زندگی بسر کر رہے ہیں اور غلہ کی کمیابی کی وجہ سے قحط زدہ ہیں۔ سندھ کے بدعنوان بیوروکریٹ ا ور کرپٹ سیاستدان انکی امداد کیلئے موجود گندم انہیں سسکا سسکا کے دیتے ہیں اور بیشتر حصہ خود ہڑپ کرتے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں بچے، پیروجواں، خوراک کی کمی کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ بھی تھر میں خوراک کی کمی کا شکار چالیس سے زیادہ بچے وفات پا گئے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد سندھ میں تھر کے لئے پچاس لاکھ تیس ہزار ایکڑ فٹ اضافی پانی دیا جانا ہے۔ چولستان کیلئے بارانی موسم میں دریا کا سیلابی پانی کاشتکاری اور دیگر استعمال کیلئے دیا جانا ہے۔ تھر ا ور چولستان میں خوشحالی آنی ہے۔ کے پی کے اضلاع ٹانک، لکی مروت، کرک اور ڈیرہ اسماعیل خان کیلئے گریوٹی کینالز کے ذریعے زراعت اور دیگر استعمال کیلئے دریائے سندھ کا پانی کالا باغ ڈیم کی جھیل سے دیا جانا ہے۔ آپ تحقیق کیجئے، صوبہ کے پی اپنے حصہ کا تمام پانی تربیلا ڈیم سے حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی بھاشا ڈیم سے لے سکتا ہے۔ البتہ مہمند ڈیم کا تمام پانی کے پی میں استعمال ہونا ہے۔
بلوچستان کی غیر آباد زمین کو کچھی کینال کے ذریعے زیر کاشت لانا ہے اور اس میں پانی کالا باغ ڈیم مکمل ہونے کے بعد ملنا ہے۔ ابھی کچھی کینال مکمل نہیں ہے۔ جتنا بنا ہوا ہے اس میں پانی دیا جا رہا ہے۔ ڈیم مخالفین پر دستور کے آرٹیکل 6 کے تحت ملک دشمنی/ غداری کا مقدمہ چلا کر چند افراد کو سزائیں دینے سے کالا باغ ڈیم بنایا جا سکتا ہے ا ور چاروں صوبوں کے پانی کے پیاسی عوام کو پانی مہیا کر کے انہیں دستور کے مطابق برابر کے حقوق دینا یقینی بنایا جا سکتا ہے تو یہ قابل تحسین عمل ہو گا۔ ڈیم مخالفین میں سے اکثر کے اوپر آرٹیکل 6 کے اطلاق کا اعلان بجلی بن کر گری ہے اور وہ بوکھلاہٹ اور ہکلاہٹ میں مبتلا ہوئے، ’’خوف میں انسان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے اور انسان مفلوج ہو جاتا ہے۔ اس کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے‘‘۔ ڈیم مخالفین کہتے ہیں کہ پانی نہیں ہے اس لئے کوئی بھی ڈ یم نہیں بنایا جائے۔ یہ کہ ڈیم بنانا پیسے کا ضیاع ہے وغیرہ۔ ان سے صرف یہ سوال کیا جائے کہ ’’پانی نہیں ہے تو سیلاب کہاں سے آتے ہیں‘‘۔ ہمارے دریاؤں میں کسی برس سیلاب آتے ہیں تو وافر ڈیمز ہونے کی صورت میں انہیں بھرا جا سکتا ہے۔ جب پانی کی آمد میں کمی ہو تو ڈیمز میں موجود پانی کو کاشتکاری کیلئے استعمال کر کے خشک سالی کے اثرات کم کئے جاتے ہیں۔
چین نے 40 ہزار سے زیادہ ڈیمز تعمیر کئے ہیں۔ مصر نے تین برسوں کی مجموعی ضرورت کا پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے۔ بیشک دریا نیل میں پانی کا بہاؤ بہت کم ہو، پھر بھی تین برس تک، جمال عبدالناصر ڈیم (اسوان ہائی ڈیم) کے پانی کے ذخیرہ سے زراعت کیلئے پانی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں ڈیمز انہی اصولوں کے تحت بنائے جاتے ہیں کہ وافر پانی کی صورت میں ڈیمز کو بھریں، جن مہینوں اور برسوں میں دریاؤں میں پانی کی روانی کم ہو تو ڈیمز کے ذخائر آب سے کمی کو پورا کر کے تمام زیر کاشت رقبہ پر فصلیں اگا کر دائمی طور پر غلہ، سبزیات، پھل ا ور صنعت کیلئے خام مال کی فراوانی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ڈیموں پر بنے پن بجلی گھروں سے سستی توانائی حاصل کر کے عوام کو جدید دور کی سہولیات مہیا کی جا سکیں اور صنعت کو فروغ مل سکے۔
کراچی کاسمو پولیٹن کی آبادی اور صنعت کی ضروریات کیلئے دریائے سندھ کا تازہ پانی پہنچانے کیلئے گذشتہ کالم میں منصوبہ تجویز کیا تھا۔ اس منصوبہ کے حقیقی ہونے کی تصدیق کرنے کیلئے مزید تحقیق کے سلسلہ میں سول انجینئر محمد اقبال کے تعاون سے کوٹڑی تا سمندر، دریائے سندھ کی تہہ (River Bed) کی سطح سمندر سے اونچائی گوگل سیٹلائٹ کے ذریعے دریائے سندھ کا سروے کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ساحل سمندر سے کچھ فاصلہ اوپر بہاؤ پر سائیٹ ہیں، جہاں پر دریائے سندھ پر اسپل وے یا بیراج بنانا موزوں ہے۔ کیٹی بندر سے مشرق میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد بستی ’’کھاروچن‘‘ سے اوپر بہاؤ پر دریائے سندھ کے دو پارٹ بن جاتے ہیں۔ وہاں سے سمندر تک دریائے کی تہہ کی سطح، سمندر کی سطح سے کہیں دو سے تین میٹر بلند ہے یا دو سے تین میٹر نیچے ہے مگر دریائے سندھ کے دو شاخ بننے کے مقام سے اوپر بہاؤ پر مقامات ہیں جہاں پر دریا کی تہہ River Bed کی سطح، سمندر کی سطح سے سات میٹر بلند ہے۔ ایسے کسی مقام پر اسپل وے یا بیراج بنایا جائے۔ آئندہ کے ریفرنس کیلئے ہم اسے ’’کھاروچن اسپل وے‘‘ یا ’’کھارو چن بیراج‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ کوٹڑی کے قریب River Bed دریائے سندھ کی تہہ کی بلندی سطح سمندر سے پندرہ تا سولہ میٹر ہے۔ اگر کھارو چن اسپل وے یا بیراج دریا کی تہہ کی سطح سمندر سے سات میٹر کی بلندی کے مقام پر تیرہ میٹر بلند تعمیر کیا جائے اور دریا کے دونوں کناروں کے بند معقول بلند کئے جائیں تو کوٹڑی کے مقام پر تین سے جار میٹر پانی بلند ہو گا۔ ایسی صورت میں تین سو ٹن وزن سامان اٹھانے والے بارجز کراچی سے کوٹڑی تک تجارتی سامان کی آمدورفت کر سکتے ہیں۔ کراچی سے کوٹڑی تک CPEC کے روٹ پر گاڑیوں کی ٹریفک کا دباؤ کم ہو جائے گا۔ دریائے سندھ، کھاروچن بیراج/ سپل وے سے کوٹڑی تک جھیل بن جائیگی۔ تقریباً 25 سے 30 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ کلی طور پر حکومت سندھ کے تصرف میں ہو گا۔ 3 ستمبر 2018ء سے کوٹڑی بیراج سے نیچے 37500 کیوسک پانی بہایا جا رہا ہے۔ یہ پانی 3099 ایکڑ فٹ فی گھنٹہ یا 74376 ایکڑ فٹ (چوبیس گھنٹہ) روزانہ بنتا ہے۔ یہ پانی اسپل وے/ بیراج سے گزرنے سے پہلے دریائے سندھ کی جھیل کو بھر دے گا اور بعد میں فاضل پانی سمندر میں چلا جائیگا۔ ایسا ہی اسپل وے انڈیا کے کیرالہ اسٹیٹ میں دریائے اچنکول کا سمندر میں داخل ہونے سے پہلے تھوٹا پلی کے مقام پر ’’تھوٹا پلی‘‘ اسپل وے بنا ہوا ہے۔ برطانیہ میں دریا ٹیمز پر، ٹیمز بیرئیر اور دریا ٹیز پر مڈلز بوروبیراج بنے ہوئے ہیں۔ پانی کے اس ذخیرہ سے کراچی، ٹھٹھہ، کیٹی بندر اور مضافات کی شہری آبادی کیلئے پینے کا پانی وافر مقدار میں مہیا کیا جا سکتا ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر میلوں تک زیر زمین میٹھا پانی مل سکتا ہے اور زمین بھی زرخیز رہے گی۔ ساحلی علاقہ پر پام آئل، زیتون کے باغ اگا کر ملک میں خوردنی تیل کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں اور پھلوں کے باغ، سبزیات اور غلہ اگا کر انسانی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ ٹھٹھہ اور سجاول اضلاع کی زرعی زمینوں کے لئے پانی کی قلت ختم کی جا سکتی ہے۔ کھارو چن بیراج یا اسپل وے ایسا منصوبہ ہے جو دو یا تین برسوں میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اس پر پن بجلی گھر بھی نصب کیا جا سکتا ہے اور پورا منصوبہ کم خرچ میں بن سکتا ہے۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے بعد سندھ کے عوام میں اعتماد پیدا ہو گا کہ مرکزی حکومت سندھ کے عوام کی بہبود میں دلچسپی لے رہی ہے تو دیگر ڈیمز بشمول کالا باغ ڈیم کیلئے مخالفت ختم ہو جائیگی۔ عوام میں خوشحالی آئے گی اور پاکستان کی معیشت میں اضافہ ہو گا۔