واشنگٹن ( آن لائن )امریکہ نے اپنے مطالبات کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ وہ پاکستان سے دو چیزوں کا خواہشمند ہے جس کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کو افغانستان میں ان کے گروپ سے کاٹ دیا جائے اور انہیں امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے مجبور کیا جائے۔امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) کے کمانڈر جنرل جوزف ایل ووٹل نے پینٹاگون میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ واشنگٹن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان دو نکات کی وضاحت کی۔جنرل جوزف بحیثیت سینٹکام کے سربراہ کے افغانستان میں امریکی سربراہی میں جاری جنگ کے براہ راست ذمہ دار ہیں جس میں پاکستان سے مبینہ سرحدی حملوں کو روکنا بھی شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پاکستان میں موجود طالبان کی قیادت کی جانب سے میدان میں موجود ان کے جنگجووں کو ہدایات، احکامات اور دیگر چیزیں نہیں آرہی ہوں’۔انہوں نے کہا کہ ‘انہیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہاں بظاہر یا خفیہ طور پر کوئی سرگرمی نہیں ہورہی ہے اور یہ جنگجو طبی امداد یا دیگر چیزوں کے لیے پاکستان نہیں آسکیں۔اپنے مطالبات کو دہراتے ہوئے امریکی جنرل نے کہا کہ ‘پاکستان کو طالبان قیادت کو مذاکرات کی ٹیبل پر آنے کے لیے طالبان کو مجبور کرنے کی بھی ضرورت ہے’۔ایک سوال پر کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان اثر رکھتا ہے یانہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ یہ کرسکتے ہیں، وہ انہیں ایسا کرنے کے لیے دباﺅ ڈال سکتے ہیں’۔ ۔وزیرخارجہ شاہ محمود قرےشی کے افغانستان کے حوالے سے دےئے گئے بیان پر جنرل جوزف کا کہنا تھا کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اور ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان نے اپنے ملک سے دہشت گرد تنظیموں کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بالخصوص افغان سرحد سے ملحق علاقوں سمیت مخصوص علاقوں میں کارروائیاں کی ہیں’۔انہوں نے افغانستان کے اندر طالبان کی جانب سے تاحال اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی اہلیت کے حوالے سے امریکی جائزے پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی طالبان کی موجودگی ہے اور پاکستان کو انہیں (طالبان) پیچھے دھکیلنے کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے'۔جنرل جوزف نے 2 اکتوبر کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیکل پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جا بولٹن سے ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وزیرخارجہ نے افغانستان میں ان کی سربراہی میں امن اور مصالحتی کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے اپنے ملک کے عزم کو واضح کردیا ہے۔امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے مزید اعتراف کیا کہ افغانستان میں امن و استحکام ان کے اپنے ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے اہم ہے'۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج پاکستانی فوجی قیادت کے ساتھ مستقل رابطے میں ہے اور ان کے ساتھ ان معاملات کے علاوہ دیگر امور پر بھی بات کرتی ہے۔
امریکہ