پاکستان دنیا میں آبادی کے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک ہے۔ہمارے ملک میں خام مال وافر مقدار میں موجود ہے ہنر مندوں کی بھی کمی نہیں ہے۔اس کے باوجود ہم عالمی معیشت میں اپنا حصہ نہیں لے پاتے ہیں۔ اس ناکامی کے اسباب پر اگر غور کیاجائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں سب کچھ ہونے کے باوجود عالمی قوانین کے مطابق کام نہیں کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم صرف اپنی محنت کا معاوضہ وصول کرتے ہیں اس کے ثمرات کوئی اور لے جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹریڈمارک، کاپی رائٹس اور پیٹنٹ رائٹس کی اہمیت اور افادیت سے اکثریت نابلد ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی محنت کا حقیقی فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔مختلف شعبہ جات جن میں کھیل کا سامان، سرجری کے آلات،چمڑے کی مصنوعات اور ٹیکسٹائل کے شعبے سمیت کئی دیگر شعبوں میں ہماری تیار کی گئی اشیاء بین الاقوامی معیار کی حامل ہوتی ہیں۔ ان شعبوں میں ہم اشیاء تیار ضرور کرتے ہیں لیکن اپنی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اشیاء دوسروں کو دے دیتے ہیں جو ان اشیاء کو اپنا نام دے کر کئی گنا زیادہ منافع لے جاتے ہیں۔ہم اپنی دانش کا نہیں بلکہ صرف محنت کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ہم نے برانڈ ڈیولپمنٹ کا پروسیس سیکھا ہی نہیں ہے اور اس جانب توجہ بھی نہیں کرتے ہیں۔جدید دنیا کے طرز عمل کو اپنائے بغیر اقتصادی میدان میں کامیابی کا حصول تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ جہاں دیگر شعبہ جات میں اپنی تحقیق کا دائرہ بڑھاتا جارہا ہے وہیں اب یہ عالمی ادارہ معاشی میدان میں بھی مزید فعال ہوتا جا رہا ہے۔ ورلڈ بنک اور یو ایس چیمبر آف کامرس کے اشتراک سے’’گلوبل آئی پی انڈیکس‘‘ جاری کرتا ہے۔ورلڈ بنک نے یہ انڈیکس 25ممالک کے جائزے سے جاری کرنا شروع کیا تھا جو بتدریج بڑھتا ہوا سو سے زائد ممالک تک پہنچ گیا ہے۔اس انڈیکس میں پاکستان کا نام سوممالک میں بھی شامل نہیں ہے لیکن ہمارے ملک میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔دنیا میں آج عسکری جنگ سے زیادہ معاشی جنگ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ کل تک عسکری جنگ میں جس طرح سب سے بڑا ہتھیار ’’ایٹم بم‘‘ تسلیم کیاجاتا تھا آج کی معاشی جنگ میں ’’حقوقِ دانش‘‘ معاشی جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار تسلیم کیا جا چکا ہے۔جس ملک کے پاس سب سے زیادہ ’’حقوقِ دانش‘‘ہیں وہی ملک سب سے زیادہ مستحکم اور محفوظ ہے۔پاکستان میں حقوق ِ دانش کے حوالے سے جو صورتحال ہے اس کے تناظر میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ تسلسل کے ساتھ کام کیا جائے تاکہ پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ کھڑا ہو سکے۔پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں حقوق دانش کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر ہی نہیں کیا گیا۔ یہ صورتحال بہت زیادہ حیران کن تو نہیں ہے لیکن قابلِ غور ضرور ہے۔ آئی پی کلچر کے فروغ کے لیے نئے عزم،حوصلے اور استقامت کے ساتھ بھر پور طریقے سے زندگی کے تمام شعبوں میں کام کیا جانا ناگزیر ہو چکا ہے۔پاکستان کو معاشی جنگ لڑنے کے لیے ملک میں ’’حقوقِ دانش‘‘کے اداروں کو مضبوط بنا نا ہوگا اور اس حوالے سے جنگی بنیادوں پر شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ برانڈ فائونڈیشن پاکستان کا ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کا واحد ادارہ ہے جو حقوقِ دانش کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے وائپومیں مبصر کا درجہ رکھتا ہے۔برانڈ فائونڈیشن نے ایک طویل جدو جہد کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہے۔یہ ادارہ پاکستان میں آئی پی کلچر کے فروغ کے لیے تمام ممکنہ وسائل کو برائے کار لاتے ہوئے مسلسل کوشاں رہتا ہے۔ حکومت کو ایسے اداروں کی سر پرستی کرتے ہوئے ان کی کاوشوں کو مزید فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہم حقوقِ دانش کے میدان میں نمایاں پوزیشن حاصل کیئے بغیر معاشی جنگ نہیں جیت سکتے۔ پاکستان ایک ایسا
ملک ہے جو مختلف برانڈ تخلیق کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے لیکن ہم اس شعبے میں سب سے پیچھے ہیں۔آج جدید دور میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کا حصول بھی آئی پی کلچر سے منسلک کردیاگیا ہے۔ جن ممالک میں آئی پی کلچر پایا جاتا ہے وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری اپنے آپ آنے لگتی ہے۔جن ممالک میں آئی پی کلچر نہیں ہوتا وہاں سے سرمایہ دار ایسے بھاگتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اقوام متحدہ کے ادارے اس حوالے سے باقاعدہ سروے کرتے ہیں اور آئی پی کلچر کے ممالک کی درجہ بندی بھی کرتے
ہیں۔ ورلڈ انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس آرگنائزیشن (WIPO)کاکردار اس حوالے سے بہت اہم ہے۔وہ دنیا کے تمام ممالک میں حقوق دانش کے حوالے سے پائی جانے والی صورتحال کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔یہ ادارہ گلوبل انو ویشن انڈیکس ترتیب دیتا ہے جس میں ان ممالک کا ذکر کیا جاتا ہے جہاں کسی نہ کسی شکل میں حقوق دانش کے حوالے سے کام ہو رہا ہوتا ہے۔وائپو اس حوالے سے دنیا کے 143ممالک کو منتخب کرتاہے۔یہ وہ ممالک ہیں جہاں حقوق دانش کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کام ہوتا ہے۔یعنی یہاں حقوق دانش کے ادارے موجود ہیں اور قوانین بھی پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا شمار اس فہرست میں آخری دس ممالک میں ہوتا ہے۔حقوق دانش کی اہمیت اور ضرورت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور عصر حاضر میں اسکے حصول کے بغیر کسی بھی شعبہ زندگی میں ترقی کا تصور محال ہے، حقوق دانش کی آگاہی، اسکی قانونی افادیت اور فروغ کیلئے پرائیوٹ سیکٹر حکومت کے متعلقہ اداروں کے ساتھ اشتراک عمل سے بھرپور مہم چلائے تاکہ حقوق دانش کی چوری اور اسکی خلاف ورزی کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے۔ اقوامِ عالم کے سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور مشہور و معروف برانڈز بنانے والی بین الاقوامی کمپنیوں کو پاکستانی مارکیٹ کی جانب راغب کیا جائے اور اُنہیں یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ اب پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک کے شانہ بشانہ کھڑا ہے جہاں حقوقِ دانش کی ملکیت کا احترام اور تحفظ پایا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے)کے ماتحت آئی پی آرانفورسمینٹ ڈائیریکٹوریٹ کو فعال کیاجائے اس کے بغیر ملک میں آئی پی رائٹس قوانین کی خلاف ورزی کی روک تھام ناممکن ہے۔پاکستان میں حقوق دانش قوانین کے احترام کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اوراس حوالے سے ہمارے تعلیمی اداروں اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس انسانی وسائل بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔مناسب حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے زمینی حقائق کے مطابق منصوبہ بندی کی جائے تو پاکستان کو معاشی اور اقتصادی مسائل سے نجات دلانابہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائے اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے انقلابی اقدامات عمل میں لائے۔ آئی پی ڈائیریکٹری کی اشاعت یقینی بنائی جائے، آئی پی رجسٹرڈ برانڈز کی سرٹیفیکشن(باقاعدہ تصدیق)کا پروگرام شروع کیا جائے۔ انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (IPO) کی SECPکی طرز پر ازسرِنو تدوین کی جائے اور تمام شعبوں کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ بنایا جائے۔ سرچ سے لے کر فائلنگ تک تمام مراحل کو آئن لائن کیا جائے۔ایف آئی اے کے تحت ڈائیریکٹر آئی پی کے محکمے کو فعال کیاجائے۔ اس کی استعداد کار کو بڑھاتے ہوئے اس سے مارکیٹ اور انڈسٹری میں ’’واچ ڈاگ‘‘ کا کام لیا جائے۔چربہ سازی کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیئے جائیں۔آئی پی او کے محکمے میں آئوٹ ریچ پروگرام کے تحت خصوصی شعبہ قائم کیاجائے اور تمام بڑے صنعتی اور تجارتی شہروں میں اس کے دفاتر قائم کیئے جائیں۔ جامعات میں اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرتے ہوئے انہیں حقوقِ دانش کے فروغ کے لیے اہداف دیئے جائیں۔ یونیورسٹیز اور درسگاہوں میں مذاکرے،سیمینار اور ورکشاپس کا انعقادکیاجائے۔روڈ شوز کے ذریعے عوامی شعور کو اجاگر کیاجائے۔میڈیا ہائوسز کے اشتراک سے خصوصی مہم شروع کی جائے۔سر کاری اور نجی یونیورسٹیز میں حقوق دانش کے حوالے سے خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیاجائے۔جامعات میں حقوق دانش کو ایک مضمون کی حیثیت سے متعارف کرایاجائے۔حقوق دانش کے موضوع پر کتب کی تیاری اور نصابی میٹریل کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ
حکومت تنہا وہ سب کچھ نہیں کرسکتی جس کے ذریعے ملک میں معاشی انقلا ب کی راہ ہموار ہو سکے۔اس سلسلے میں نجی شعبہ کو اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔ معاشرے میں جب تک حقوق دانش کا احترام کرنے کا خیال جڑ نہیں پکڑے گا ہم اس میدان میں آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔جب تک ہم جنگی بنیادوں حقوق دانش کی جنگ لڑنے پر آمادہ نہیں ہوںگے اس وقت تک بین الاقوامی برادری ہمارے ملک میں ہمارے حصے کے مطابق سر مایہ کاری نہیں کرے گی۔ہمیں حقوق دانش کی جنگ لڑتے ہوئے عالمی برادری کو جہاں یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں حقوق دانش کا احترام کیا جاتا ہے۔آئیں ہم عہد کریں کہ پاکستان کو حقوقِ دانش کے حوالے سے محفوظ ترین ملک بنانے میں ہم سب اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے۔