افغان اعلی سطحی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے دورہ پاکستان کو پاکستان کے دفاعی مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ اس سے افغانستان میں امن کی راہیں بھی کھلیں گی اور غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی۔پاکستان افغانستان کے تمام نسلی گروہوں کی عافیت اور بہتری چاہتا ہے۔ افغانستان کے پڑوسی اور بین الاقوامی برادری اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ افغان مسئلے کا پر امن حل ہی علاقائی امن کیلئے لازم ہے۔واضح رہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان کا پر تپاک استقبال کیا۔پاکستان افغانستان کی ترقی اور وہاں امن و امان چاہتا ہے کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان سمیت خطے کے مفاد میں ہے جبکہ بھارت واحد ملک ہے جو افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ شمالی اتحاد میں اپنا کردار کھو رہا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا تعلق شمالی اتحاد سے ہے اور ان کا دورہ پاکستان تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو کوئی بھی افغان امن مذاکرات اور امن کی مخالفت کرتا ہے وہ افغانستان کا دشمن ہے۔ پڑوسی افغانستان میں چالیس سالہ جاری تنازعہ سے بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا شدید خواہش مند ہے۔ اب دنیا کی ترقی اکیلے نہیں ہوتی بلکہ خطے کی ترقی سے منسلک ہوتی ہے۔ مستقبل میں پاکستان اور افغانستان علاقائی رابطوں اور تعاون سے دونوں ممالک کو خوشحالی پر گامزن کر سکتے ہیں۔ پاکستان سی پیک سے بھی افغانستان کو معاشی فائدہ دینا چاہتا ہے۔ بہر حال بات ہو رہی تھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورہ پاکستان کی جو کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، صدر مملکت عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت پاکستان کے کئی رہنماوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ افغان رہنما ایک تھنک ٹینک کی تقریب سے بھی خطاب کریں گے۔یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کار امن کوششوں میں مصروف ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی فوج انتخابات سے پہلے واپس بلانے کی جلدی ہے۔ دوحہ میں کی جانے والی ان کوششوں میں اسلام آباد کا کردار بہت اہم ہے، جس نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک مضمون میں، جو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا، اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان افغان امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا اور یہ کہ فریقین کو اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور صبر و استقامت سے ان مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورے سے اب پاکستان میں کئی لوگ امیدیں لگا رہے ہیں کہ جنگ زدہ ملک میں امن کی راہیں کھلیں گی۔
پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ دورہ 'تاریخی تلخیاں‘ ختم کرنے میں معاون ہو گا۔ ان کے خیال میں ایسی تلخیاں کم ہونے سے افغانستان میں امن کے امکانات روشن ہوں گے۔ معروف دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کا کہنا ہے کہ یہ دورہ بہت مثبت ہے۔
پاکستان کا موقف یہ تھا کہ مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈا جائے اور طالبان کو ایک حقیقت تسلیم کیا جائے۔ آج امریکا بھی طالبان کو ایک حقیقت تسلیم کرتا ہے اور عبداللہ عبداللہ سمیت افغانستان میں دوسرے اسٹیک ہولڈرز بھی انہیں ایک حقیقت تسلیم کر تے ہیں۔ اسلام آباد طالبان اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان پُل کا کام کر سکتا ہے۔ اسی لیے عبداللہ عبداللہ یہاں آئے ہیں، جو ان کے دورے کے مقاصد میں سے ایک ہے۔‘‘افغان امن عمل میں بھارت اور اشرف غنی اب بھی رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں، ''لیکن پاکستان دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے کیونکہ اسلام آباد افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت چاہتا ہے اور یہ دورہ اس لحاظ سے اہم ہے‘‘
عبداللہ عبداللہ کا دورہ پاکستان
Oct 09, 2020