اسرائیل کو ماننے سے پہلے اس سے خود کو تسلیم کروا لو

عالمی سطح پر اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پرامن بقائے باہمی کی خاطر آزاد اقوام ایک دوسرے کے وجود کی قانونی حیثیت کو ماننے کا اعلان کرتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو تسلیم کر لیا ہے، سفارتی تعلقات کے بعد ہر قسم کے باہمی لین دین اور تعاون کی راہیں پیدا ہوتی ہیں، تسلیم کرنے کا یہ سلسلہ کبھی تو دل سے قائم ہوتا ہے اور کبھی مجبوری سے کرنا پڑتا ہے مثلاً ہندو بھارت پاکستان کے وجود کو چونکہ دل سے نہیں مانتا اس لئے تنگ نظر، متعصب اور بقائے باہمی کے منکر ہندو کا ہر قدم پاکستان کے خلاف اٹھتا ہے، یہی حال ہے اسلامی مشرق وسطیٰ کے ساتھ یہودی ریاست اسرائیل کے درمیان بھی‘ یہودی سودی سرمایہ نے دو بے مقصد اور بے فائدہ عالمی جنگوں سے نڈھال صلیبی یورپ کو سہارا دیکر اٹھایا تھا مگر اس کے نتیجے میں مسیحی صلیبی یورپ یہود کے پنجے میں جکڑا گیا تھا‘ عجیب بات یہ ہے کہ یہود کے پنجے میں کراہنے والے یورپ نے اس آفت سے بچنے کے لئے عالم اسلام کے قلب و مرکزالقدس شریف میں یہودی ریاست کو گاڑھ دیا، اس سے صلیبی یورپ نے بیک وقت دو دشمنوں یہودیت اور اسلام سے چھٹکارا پانے کا نظریہ قائم کر رکھا ہے۔
حالانکہ یہودیت ’’عالمی صہیونیت‘‘ کا لباس پہن لینے کے بعد جس قدر مسیحی دنیا کے لیے خطرہ ہے اتنا خطرہ شاید عالم اسلام کے لئے نہیں ہے، کیونکہ سیدنا مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریمؑ کے لئے گندے خیالات اور عقائد یہود کے ہیں اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملے گی، مگر حضرت عیسیٰؑ اور ان کی پاکدامن اور مقدس والدہ ماجدہ کی عظمت و شان جو قرآن کریم اور امت مصطفیؐ میں موجود ہے وہ تو آپ کو کہیں اور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی، ان کی یہ عظمت اور شان مسلمان کا تو ایمان ہے!!
ہمارے ذرائع ابلاغ کی مانند دنیا بھر کے تمام ذرائع ابلاغ میں بھی چند دن پہلے سے ایک زلزلہ کی خبر آئی تھی جس نے سب کو اور خصوصاً عرب اسلامی مشرق وسطیٰ کو تو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اب تک روزانہ اس زلزلہ کے ’’جھٹکے‘‘ محسوس کئے جا رہے ہیں۔ ایک ’’بہادر‘‘ عرب لیڈر نے بڑی جرأت کرکے ناجائز طورپر وجود میں آنے والی یہودی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کو تسلیم کرنے کا اعلان دے مارا تھا۔ اب تک کئی ایک دو عرب بہادر لیڈر اپنے اپنے اہل وطن کو اس زلزلے کے ’’جھٹکے‘‘ دیتے آرہے ہیں اور دنیا کی سکرین پر اپنے ’’روشن خیال‘‘ ہونے کی جھلکیاں دکھاتے چلے آرہے ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم فلسطین اور القدس شریف پر قابض یہودیوں کا ردعمل کھل کر سامنے نہیں آیا۔ میں جب مصر کی قدیم اور عظیم یونیورسٹی الازہر شریف میں وزٹنگ پروفیسر تھا تو فلسطین کے شہرحیفہ میں عربی پڑھانے والے یہودی سے اکثر ملاقات رہتی تھی جو قاہرہ یونیورسٹی سے اپنی عربی بہتر بنانے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے آیا ہوا تھا۔ میں نے ایک روز اسے کہا تھا کہ یار تم عربوں کو ساتھ ملا کر فلسطین میں جمہوری حکومت کیوں نہیں بنا لیتے جس کا وزیراعظم مسلمان عرب ہو اور وزیرخارجہ مسیحی فلسطینی عرب اور تمہارا یہودی صدر بن جائے؟ تو وہ یہودی غیظ و غضب میں آکر مجھ سے لڑ پڑا تھا اور پھر ہمیشہ مجھے گھورتے ہوئے پاس سے گزر جاتا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ تم پاکستانی اندھے اور بے خبر ہو‘ تمہارا علاج صرف بھارت کے ہندو کے پاس ہے جس میں ہم یہودی بھی اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں اور آخری دم تک ڈالتے رہیں گے مگر تجھے شاید پتہ نہیں کہ ہم نے تو شام کے دریا بردی سمیت فرات (عراق) اور نیل مصر تک یہودی سلطنت قائم کرنا ہے اور پھر برہمن بھارت کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا سے سرسبز اور زرخیز زمین چھین کر مسلمانوں کا قبرستان بھی بنانا ہے۔
تو یہ ہیں اصل یہودی اسرائیلی جو اسماعیلی عربوں کی جگہ اسرائیلی یہودیوں کو بسانا چاہتے ہیں مگر ہمارے عرب بھائیوں پر مسلط بزدل ’’روشن خیال‘‘ لیڈر یہودی اسرائیلی سے خود کو منوانے سے غافل ہیں۔
بات یہ ہے کہ یہودی (جس نے اب اپنا نیا لباس ’’ عالمی صہیونیت‘‘ پہن لیا ہے‘ وہ سودی نظام کا خود کو بادشاہ گردانتا ہے اور دنیا بھر کو اپنے ناپاک اور حرام سودی سرمایہ کے سیلاب سے بہا لے جانے کے لئے کمر بستہ ہے، فحاشی، شراب خوری اور اپنی عورت فروشی اس کے ہتھیار ہیں!) نے حضرت علامہ محمد اقبال کے زمانے میں تو مسیحی یورپ کو اپنے سرمایہ سود سے پنجے میں لے رکھا تھا، مگر آج اسی سود خوری، سود پروری اور سود نوازی سے یہودی نے مسیحی یورپ کے دم چھلے یعنی مسیحیت کے دعویدار (یعنی حقیقت میں وہ مسیحی نہیں ہے) انکل سام کو بھی اپنے پنجے میں لے رکھا ہے اور اس کی فوجی قوت سے (بھارت کے برہمن پر سوار ہو کر اسلامی دنیا کی سرسبزی اور زرخیزی کو اپنی مٹھی میں لینا چاہتا ہے مگر اس کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ ایٹمی پاکستان ہے جس کے پاس دنیا کی بہترین سرفروش اور بہادر فوج بھی ہے!)

ای پیپر دی نیشن