ONE CUP COFFEE FOR THE WALL

دیدہ زیب سجاوٹ۔ بناوٹ کے علاوہ لامحدود قوتِ خرید کی اہلیت رکھنے والے مخصوص طبقے کی پسندیدہ جگہ "Two Cups for us and One Cup Coffee for the Wall" ٹیبل پر فروکش دو لوگ مگر ’’کافی‘‘ کا آرڈر تین لوگوں کا سن کر اچنبھا سا ہوا کہ دیوار کے لیے کافی کا کیا مطلب؟ کافی کا دیوار سے کیا تعلق؟ ماجرا کیا ہے سمجھ میں نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد ویٹر آیا۔ اس کے ہاتھ میں صرف دو کپ تھے۔ وہ اس نے میز پر رکھ دیے۔ اب حیران کہ تیسرا کپ کیوں نہیں آیا۔ دونوں نے کافی ختم کر کے بل ادا کیا اور کافی ہاؤس سے نکل گئے۔ ویٹر نے ایک چٹ دیوار پر لگا دی۔ چند لمحوں بعد ایک شخص اندر داخل ہوا۔ کرسی پر بیٹھا اور ویٹر کو بلا کر کہا: "One Cup Coffee For The Wall" ۔ ’’ویٹر‘‘ نے چند ثانیوں قبل دیوار پر چپکائی چٹ اُتاری۔ پہلے جیسے وقار۔ احترام کے ساتھ کافی کا کپ لا کر اُس شخص کے آگے رکھ دیا۔ اجنبی نے سکون سے کافی پی اور بغیر پیسے ادا کیے ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا۔ حیرانگی۔ تجسس میں بدلی۔ ماجرا معلوم کیا تو حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ اٹلی کے اس ریسٹورنٹ میں کچھ لوگوں نے اپنے طور پر پلان کیا کہ وہ جب بھی کافی پینے آئیں گے۔ ہر مرتبہ ایک کپ کے اضافی پیسے ادا کریں گے جو افورڈ نہیں کر سکتے۔ پیسے نہ دینے کی استعداد کی بنا پر کافی پینے سے محرومی محسوس نہ کریں۔ اضافی کپ کا آرڈر دینے والوں کی شناخت ظاہر کیے بغیر ان کے ادا کردہ پیسوں کی چٹیں دیوار پر آویزاں کر دی جاتی ہیں۔ ہر آنے والے خواہش مند کی فرمائش نہ صرف پوری کی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاتا ہے جو امیر گاہک کاحق سمجھا جاتا ہے۔ یہ اِس صدی کا سچا بیان۔ انسان دوستی کا مظہر واقعہ ہے ۔
’’نیرو‘‘ کے روم کی ہمدردی کی بے حد خوبصورت مثال۔ انسانوں کی خواہش پوری کرنے کی اچھوتی کہانی… اس میں بہت کچھ پنہاں ہے۔ اگر کسی کو سبق یاد کرنے کے علاوہ کاغذ پر منتقل کرنے کا جنون بھی ہو تو… اکیسویں صدی کے مسلم ممالک کے لیے بھی کہ جب نظریں باہم دست و گریباں بھائیوں کی طرف اُٹھتی ہیں تو شرم سے دوبارہ دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ یہ بھی نہیں کہ برائیوں کے صرف ہم ہی ’’موجد‘‘ ہیں مگر نمو۔ فروغ میں کردار ضرور کلیدی ہے۔ ’’خونِ مسلم‘‘ کو مسلم تو مانا مگر اپنا خون قرار دینے کی پہچان کو مکاری۔ فرقہ وارانہ رنگ کی خلعت پہنا کر جھگڑوں میں صرف گم ہی نہیں کیا بلکہ خونِ مسلم کو نہر سے دریا میں بدلنے میں حصہ خوب لیا۔ دماغ سے بھی اور وسائل بھی بے تحاشہ بہا ڈالے۔ سالانہ اربوں روپے صدقہ۔ زکوٰۃ کی مد میں خرچ کرنے والے پاکستان میں حالات۔ عالمی منظر پر ٹنگی ہوئی ہماری تصویر سے بھی زیادہ دگرگوں ہیں۔ غریبوں کے لیے تڑپتے ادارے ہزاروں میں ہیں مگر اثرات زیرو۔ پاکستان مختلف طبقات کا حامل ملک ہے۔ مرکز۔ صوبوں کی بات چھوڑیں۔ ’’ٹاؤن‘‘ تک میں بادشاہی نظام نافذ ہے۔ شہنشاہیت کے جھنڈے تلے ذاتی وفاداروں کی ایک فوج ظفر موج واقعی موج میلے میں مشغول ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہماری ’’30 فیصد‘‘ آبادی کی یومیہ کمائی ’’ایک ڈالر‘‘ سے بھی کم ہے۔ آبادی ہمارا موضوع نہیں اُس نکتہ کی طرف اہل اقتدار۔ صاحب ثروت افراد کو متوجہ کرنا ہے کہ ہزاروں اداروں کی موجودگی۔ اربوں روپے سالانہ غریبوں کو بانٹنے کے باوجود عوام کا غالب حصہ بنیادی سہولت۔ حق سے بھی محروم کیوں؟ معاشرتی مسائل گھمبیر۔ امارت۔ غربت کے مابین تضادات وسیع کیوں ہو رہے ہیں؟ شخصی ترقی میں حکومتی حصہ کس حد تک اور کہاں ہے؟ اگر ہے تو نتائج کدھر غائب ہو گئے۔ سینکڑوں اسکیموں کے باوجود کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار کیوں ہیں؟ دعویٰ پر شک نہیں کہ ساری دنیا ہمارے معاشی استحکام کا اعتراف کر رہی ہے۔ اصل معاشی جائزہ وہ ہے جو کسی بھی چھوٹے۔ بڑے شہر کے اندرونی علاقوں میں رہنے والوں کی قوت خرید ظاہر کرتا ہے۔ تین ہزار روپے ماہانہ کمانے والے کے پیسوں سے ایک کلو 
پیاز خریدنے کے لیے ’’100روپے‘‘ نکل جائیں تو مٹر۔ ٹماٹر۔ ’’200 روپے‘‘ فی کلو کیسے خریدے گا؟ اب تو دو ماہ میں آٹے کی بوری ’’300 روپے‘‘ مہنگی ہو چکی ہے۔ اب وہ گرتی صحت کو دوائی کا سہارا دے یا اپنے مقدر پر راضی رہ کر بچوں کو سکول نہ بھیجنے کا ارادہ باندھے۔ حقیقی رپورٹ یہ ہے کہ جب معاشی استحکام کے انڈیکس پر لکھا ہوا آتا ہے کہ کھانے کے لیے آٹا اور علاج کے لیے پیسے نہ ہونے پر ’’45 سالہ‘‘ عورت نے خودکشی کرلی۔ تھوڑی عمر نہیں۔ ’’45 سال‘‘ بعد بھی اتنی سکت نہیں کہ چند روپوں کا آٹا خرید سکتی۔ حکومت کے دکھائے خوابوں کی تعبیریں اس وقت بہت بھیانک دکھائی دیتی ہیں جب ’’300 روپے‘‘ روزانہ کمانے والا مزدور ’’5 ہزار روپے‘‘ بجلی کا بل دیکھ کر دماغ کی شریان پھٹنے سے ہلاک ہو جائے۔ لمحہ موجود میں پوری ریاست کی چھت اپنے بھاری بھرکم وجود کی بقاء کے لیے غریب عوام کے کمزور کندھوں پر کھڑی ہے۔ شبہ نہیں کہ حکومتی ذمہ داریاں بھی نہایت پیچیدہ ہوتی ہیں۔ گرچہ تمام طبقات تک اطمینان۔ کامل رسائی ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں۔ ناقابل علاج ہوتے سماجی و معاشی امراض کی شفایابی کا فریضہ اشرافیہ پر بھی عائد ہوتا ہے۔ انسانیت کی مدد۔ خدمت کا طریقہ ’’اٹلی ریسٹورنٹ‘‘ والا قابل تقلید مثال ہے۔ اس وطن میں کپڑے۔ راشن تقسیم کرنے والوں کی کمی نہیں بلکہ ہر روز تعداد میں اضافہ دیکھتے ہیں۔ بس انداز کچھ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ہی مقصد کے لیے سرگرم عمل شخصیات۔ ادارے متحد ہو کر مفید نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اناج تقسیم کرنے والے ہر شہر میں مخصوص جگہیں۔ ہوٹلز مقرر کر دیں۔ خرابی کلیتہً روکنا ممکن نہیں۔ بشری کمزوریوں کو نظرانداز کرکے نگرانی اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ اسی طرح زکوٰۃ سے روزگار۔ بحالی کے عمل کو پروان چڑھانے کا کام لیں۔ گو یہ کام حکومت کا ہے مگر جب نجی شعبہ نے بوجھ اُٹھ رکھا ہے تو اپنے وسائل کو خود بانٹیں۔ کوئی صورت نہ بنے تو پھر ہر سال بڑے مخصوص اداروں کو دینے کی بجائے چھوٹے اداروں پر توجہ مرتکز کرنا انصاف ہو گا۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن