پاکستان تحریکِ انصاف سے جڑا ہر شخص مہنگائی پر حکومتی بیانات پر دلائل دینے کی کوشش کرتا ہے، چیزیں مہنگی ہونے پر یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ستم ظریفی ہے وفاقی وزراء جن کی نگرانی میں سب کچھ ہو رہا ہے وہ بھی مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے کرتے ہیں، کچھ ایسے اعلیٰ ظرف اور عقلمند ہیں وہ ایسی مثالیں اور مشورے دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں انہیں عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ یعنی جیسی مثالیں علی امین گنڈا پور یا پھر قومی اسمبلی میں حکومت کے وزراء بیان کرتے ہیں انہیں سن کر کہنا پڑتا ہے۔ "یہ کون لوگ ہیں، کہاں آ گیا ہوں میں" سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے تو دوسری طرف وزراء کے بیانات زخموں پر نمک گرا رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کس طرح روزانہ اس ڈھٹائی کے ساتھ غلط بیانی کرتے ہیں۔ کیا عوامی نمائندے ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے بھوک، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ غلط غلط مثالیں پیش کر کے اپنی بیڈ گورننس کا دفاع کرتے رہتے ہیں۔ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں تو مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے اس کے ساتھ ذرائع آمدن بڑھانے میں بھی کارکردگی مایوس کن ہی نظر آتی ہے۔ جو لوگ ہر صبح اٹھ کر اپوزیشن کو برا بھلا کہنا شروع کرتے ہیں اگر وہ اپنے کام پر توجہ دیتے، عوامی مسائل اور مشکلات کو دور کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتے تو عوام خود اپوزیشن کا احتساب کرتے لیکن انہوں نے کام کے بجائے بیانات پر توجہ دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کوئی ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا۔ سنجیدہ لیا بھی کیسے جا سکتا ہے جب ہر پندرہ دن بعد مہنگائی کا بم گرایا جائے تو کسی بات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ مہنگائی کی وجہ سے حکومتی شخصیات کو نمائشی تکلیف ہوتی ہے اور وہ الفاظ سے عام آدمی کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کچھ کام نہیں کرتے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے سب کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس کا جو دل کرے کرتا رہے۔ حکومت کے پاس نہ وقت ہے نہ ویژن ہے نہ ہمت ہے اور نہ ہی مہنگائی قابو کرنے کے لیے جس جوش و جذبے کی ضرورت ہے وہ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ مہنگائی روکنے کے لیے بیانات تو صرف امریکی ڈرون حملوں کے جواب میں دیے جانے والے بیانات جیسے ہیں کہ وہ حملے کرتے رہیں ہم بیانات دیتے رہیں۔ مہنگائی کے معاملے میں یہی حال حکومت کا ہے۔ ویسے تو ہر روز اس حوالے سے کوئی مثال ملتی ہے تازہ مثال یہ ہے وفاقی شوگر اپیلیٹ کمیٹی نے چینی کی قیمت 89 روپے75 پیسے فی کلو مقررکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پچین روپے سے شروع ہونے والی چینی کی سرکاری قیمت نوے روپے تک پہنچ جائے تو گورننس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ اس سے بڑی ناکامی بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ ویسے حکومت جو بھی قیمت مقرر کرے اس قیمت پر چینی پورے پاکستان میں کہیں دستیاب نہیں ہو گی۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر حکومت خود چیزیں مہنگی کرنے کے احکامات جاری کرتی ہے پھر کہا جاتا ہے کہ مہنگائی عارضی ہے جلد قابو پائیں گے۔ کوئی کہتا ہے وزیراعظم کے دل میں عام آدمی کے لیے ہمدردی ہے، کوئی وزیراعظم کے خیالات پڑھ کر متاثر ہوتا ہے تو کوئی روٹی کم کھانے کا نادر مشورہ دیتا ہے۔ حکومتیں لوگوں کی بھوک کم کرنے اور خوراک بہتر کرنے کے لیے اقدامات اٹھاتی ہیں یہ منفرد حکومت ہے جو خوراک متاثر کرنے اور بھوک بڑھانے کو بھی قومی خدمت قرار دیتی ہے۔
ساتھ ہی یہ خبر بھی ہے کہ اگست کے ماہانہ فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ایک روپے پچانوے پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے۔نیپرا کی جانب سے جاری نوٹفکیشن میں کہا گیا ہے کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے دو روپے سات پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست کی تھی۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق صرف اکتوبر کے مہینے کے بلوں پر ہو گا، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔ اس اضافے سے صارفین پر تیس ارب چالیس کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا۔ بجلی کے مہنگا ہونے سے ہر دوسری چیز مہنگی ہو گی۔ حکومت پھر نمائشی طور پر چھوٹے دکانداروں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کرے گی عام آدمی چیخے چلائے گا لیکن کوئی اس کی بات نہیں سنے گا۔ یہ اضافہ یقیناً عوامی خدمت کے پیشِ نظر اور وسیع تر ملکی مفاد میں کیا گیا ہے۔ عام آدمی کو چاہیے کہ وہ خود کو بجلی جیسی بنیادی سہولت کے بغیر زندگی گذارنے کے لیے تیار کرے۔ قوموں پر مشکل وقت آتے ہیں اور مشکل وقت میں سوئے ہوئے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے مسائل میں اضافہ غیر معمولی بات نہیں۔ حکومت کچھ مہنگا نہ کرے صرف پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دے ہر چیز مہنگی ہو جائے گی۔ اسی طرح حکومت اور کچھ نہ کرے صرف پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی سستی کرے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں نیچے آنا شروع ہو جائیں گی۔ یہ مہنگائی حکومتی سرپرستی میں ہو رہی ہے۔ عوام کے پاس بدلہ لینے کا وقت صرف انتخابات ہے اگر وہ اس وقت اپنے مسائل نظر انداز کرنے والوں کو یاد رکھیں تو بہتر بدلہ لے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے انتخابی مہم میں بھی موقع ملے گا دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی بدلے کے وقت کیا کرتا ہے۔
ساتھ ہی آئی ایم ایف کے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں۔آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ بجلی ٹیرف کی بنیادی قیمت میں 1.40 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے تاکہ بڑے گردشی قرضے کو قابو کیا جا سکے۔ پاکستان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے حوالے سے مزید ٹیکس اقدامات کرے تاکہ سالانہ محصولات کا ہدف اٹھاون کھرب روپے سے بڑھا کر تریسٹھ کھرب روپے تک پہنچایا جا سکے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ مالی سال کے دوران چھ سو ارب روپے پیٹرولیم لیوی جمع نہیں کی جا سکی ہے۔ یعنی عوام کو مزید جھٹکوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے اور تیس ارب چالیس کروڑ کا بوجھ!!!!
Oct 09, 2021