پاناما لیکس سے پنڈورا پیپرز تک

صحافیوں کی عالمی تنظیم سے منسلک ان عظیم صحافیوں کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے جنہوں نے 18 ماہ محنت کرکے پینڈورا سکینڈل سے منسلک لاکھوں دستاویزات کا مطالعہ کرکے منی لانڈرنگ میں ملوث دنیا بھر کے ہزاروں با اثر افراد کا کھوج لگایا۔پانامہ لیکس میں پاکستان کے 300با اثر افراد شامل تھے۔ پنڈورا پیپرز کے مطابق پاکستان کی 700 شخصیات نے منی لانڈرنگ کرکے سرمایہ دنیا کی مختلف آف شور کمپنیوں میں چھپایا۔پاکستان کے تین بار وزیراعظم منتخب ہونیوالے میاں نواز شریف پانامہ لیکس میں ملوث پائے گئے‘ ان کا عدالتی احتساب کیا گیا اور وہ نااہل قرار دیے گئے۔وہ اپنے جرم کی سزا بھگتنے کی بجائے پاکستان کے نظام انصاف اور حکومت کو بیوقوف بنا کر لندن فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر پانامہ لیکس میں شامل تین سو افراد کو عبرتناک مثال بنا دیا جاتا اور اسکے نتیجہ میں پنڈورا پیپرز میں سات سو افراد شامل نہ ہوتے۔ پنڈورا پیپرز میں سیاستدانوں بیوروکریٹس ریٹائرڈ جرنیلوں اور تاجروں سب کے نام شامل ہیں ۔ متحدہ ہندوستان میں برطانیہ براہ راست لوٹ مار کرکے قومی دولت برطانیہ لے جاتا تھا‘ اب اسکے سہولت کار لوٹ مار کرتے ہیں اور دولت بدستور برطانیہ جارہی ہے۔ پنڈورا پیپرز میں جن وزیروں کے نام شامل ہیں انکی فیس سیونگ کیلئے اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے تاکہ موجودہ حکومت سیاسی بحران کا شکار نہ ہو‘ یہ ہے پارلیمانی نظام کا المیہ کہ وزیراعظم اپنے کسی بااثر وزیر کا احتساب نہیں کر سکتا۔ انکوائری کمیٹی کا سربراہ وزیر قانون کو بنایا گیا ہے جو اپنے کولیگز کا شفاف احتساب کیسے کر سکتا ہے۔ پاکستان کے محب الوطن بیدار لوگ آواز اٹھا رہے ہیں کہ وزیراعظم کا انتخاب براہ راست عوام کریں اور وہ پارلیمنٹ کے بجائے عوام کو جواب دہ ہو تاکہ وہ کسی سے بلیک میل نہ ہو اور شفاف احتساب کو یقینی بنا سکے۔پاکستان دوست افراد نے عدلیہ کو یہ درخواست دی کہ حکومت کو ڈائریکشن دی جائے کہ پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ کیلئے آئینی ریفرنڈم کرایا جائے۔ جج چونکہ سٹیٹس کو کے نظام کو بحال رکھنا چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے یہ درخواست نہ یہ کہ خارج کر دی بلکہ صدارتی نظام کے بارے میں بھی اپنے منفی ریمارکس جاری کر دیے۔عوام پاکستان کی مختلف شخصیات کے قیدی بن چکے ہیں لہٰذا جب کسی ایک سیاستدان کے خلاف کوئی بات لکھی جائے تو اسکے جانثار بے سروپا تنقید شروع کر دیتے ہیں اور تہذیب اور شائستگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ریمارکس پاس کرتے ہیں۔ اسی لئے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی عوام خود ہی اپنے مقدر کے ذمہ دار ہیں۔ جب تک وہ شخصیات سے جڑے رہیں گے پاکستان کے حالات کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے۔پاکستان تحریک انصاف کے کارکن گواہی دیں گے کہ عمران خان نے قوم سے شفاف احتساب کا وعدہ کیا تھا جس میں وہ اب تک بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔پاکستان میں جب تک شفاف احتساب کا نظام تشکیل نہیں دیا جاتا اس وقت تک پانامہ لیکس اور پنڈورا پیپرز ز سامنے آتے رہیں گے۔دنیا کے جن ملکوں میں احتساب کا کڑا نظام موجود ہے‘ پانامہ لیکس اور پنڈورا پیپرز میں ان ملکوں کے افراد کے نام شامل نہیں ہیں۔پنڈورا پیپرز نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے عوام کا مفاد کا تحفظ کرنے کے بجائے کرپٹ افراد کے معاون بن چکے ہیں جو قومی سرمایہ کو بڑی آسانی سے باہر لے جاتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں ایک وقت وہ بھی آیا تھا جب پولیس نے ہڑتال کردی اور ہڑتال کے دوران جرائم کم ہو گئے تھے۔کاش عمران خان اپنا صرف ایک وعدہ ہی پورا کردیتے اور پاکستان کے عوام کو عوام دوست پروفیشنل پولیس دے دیتے۔سوال پوچھا جاتا ہے کہ راقم نے عمران خان کی حمایت کیوں کی۔نیک نیتی سے کی ،اسکے مقابلے میں جو لیڈر تھے ان کو ہم دیکھ چکے تھے عمران خان نیا لیڈر تھا ۔اسکے بارے میں کرپشن کا کوئی سکینڈل نہیں تھا۔ اس نے کچھ ایسے وعدے کر رکھے تھے جن پر عمل کرنے سے پاکستان کی سیاسی معاشی اور انتظامی صورتحال بہت بہتر ہو سکتی تھی۔ تین سال کے بعد اندازہ ہو گیا کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے کے لیے عوام سے جھوٹ بولا ہم چونکہ اس کے مزارع اور مرید نہیں ہیں ھمارا سوہنی دھرتی سے اٹوٹ رشتہ ہے اس لیے عمران خان سے اختلاف کر رہے ہیں- اچھا کام کرے گا تعریف کریں گے غلط کرے گا مخالفت کریں گے یہی اللہ کا حکم ہے اور وطن کی محبت کا تقاضا ہے- جو لوگ جانتے بوجھتے ہوئے شخصیت پرستی کرتے ہیں وہی لوگ پانامہ لیکس اور پنڈورا پیپرز کے سہولت کار ہیں اور ایک دن اللہ کو جواب دہ ہوں گے کوئی ان کو بچانے والا نہیں ہوگا۔ اگر عمران خان اپنے وعدوں سے پھر گئے ہیںتو مزمت انکی ہونی چاہیے نہ کہ ان لوگوں کی جو حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوکر اختلاف رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان جاگوتحریک واحد تنظیم جو عوام کو باشعور بیدار اور منظم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔جاگوتحریک کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جب تک انگریزوں کا نظام تبدیل نہیں ہوگا اور قائد اعظم کے تصورات کے مطابق پاکستانی نظام تشکیل نہیں پائے گاعوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہیں گے اور اشرافیہ ان کا استحصال کرتی رہے گی۔ 

ای پیپر دی نیشن