ہارس ٹریڈنگ والی آڈیو لیک ہونے پر عمران خان کا تبصرہ دلچسپ ہے۔ انہوں نے آ ڈیو کی تردید نہیں کی ہے۔ یہ کہا ہے کہ توڑمروڑ کر پیش کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے توڑمروڑ کی تشریح یہ کی ہے کہ الگ الگ ٹکڑے کاٹ کر جوڑے گئے ہیں۔ یعنی مان لیا کہ ٹکڑے صحیح ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ جوڑا کیوں گیا ہے۔ اعتراض کا جواب یہ ہے اور جواب پی ٹی آئی والے بھی جانتے ہیں کہ ہر ٹکڑا اپنی جگہ درست ہے۔ ایک کٹ سے دوسرے کٹ تک بات مکمل ہے۔ پھر غلط کیا ہے؟ مثلاً ایک ٹکڑے میں ویڈیو ہوتی تو ہم کہتے کہ ایک ہی ”ٹیک“ میں خان صاحب فرماتے ہیں کہ پانچ آدمی تو میں نے خرید لئے۔ پانچ مزید مل جائیں تو دس ہو جائیں گے اور گیم ہمارے ہاتھ میں ہے۔ سارا فقرہ ایک ہی ہے‘ اس میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔ اب کیا فرماتے ہیں بیچ اس مسئلے کے علماءجہاد حقیقی آزادی؟
اس لیک پر بہت سے طعنے عمران خان کو مل چکے۔ بہت سے عاشقان پاکستان کو دلی صدمہ بھی پہنچا۔ خدا انہیں صبرجمیل عطا فرمائے‘ لیکن عمران خان ایسے ہی ہیں یقین نہیں آتا تو آجائے گا۔ ابھی پائپ لائن میں اور بھی ہوشربا آڈیوز موجود ہیں۔
................
ہارس ٹریڈنگ کا معاملہ جو ہے‘ وہ ہے‘ معلوم ہوا کہ سب سے زیادہ خریداری خان صاحب نے ہی کی۔ باقی سب تو ان کے مقابلے میں طفل مکتب نکلے۔ اسدعمر نامی بزرجمہر کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے پانچ خریدے تو وہ کدھر گئے‘ بڑا کمال کا نکتہ صاحب نے اپنی دانست میں نکالا ہے تو جواب اس سوال پر ازکمال کا یہ ہے کہ حضور آپ ہی کی رٹ درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ منحرف ارکان کے ووٹ گنے ہی نہیں جائیں گے بلکہ جو بھی منحرف ووٹ ڈالے گا‘ نااہل ہو جائے گا۔ آپ نے اس فیصلے پر بہت جشن منایا تھا تو یہ پانچ خرید شدہ حضرات اسی جشن کی نذر ہو گئے اور ویسے بھی عدم اعتماد کا فیصلہ کسی منحرف رکن کی ضرورت کا محتاج ہی نہ رہا تھا کہ معاملہ آپ کے اتحادیوں نے آپ سے الگ ہوکر فیصل کر دیا تھا۔ اگلا نکتہ اٹھایئے‘ یہ تو گیا!
................
ایک اور بات پر توجہ نہ میڈیا کی ہے‘ نہ خان صاحب کی‘ نہ خان صاحب کو ”بڑا مدبر سیاستدان“ سمجھنے والوں کی۔ ملاحظہ فرمایئے۔ خان صاحب اپنے ساتھیوں کو بتا رہے ہیں کہ ایسا مت سمجھیں کہ سب ختم ہو گیا۔ آپ کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان کی (اپوزیشن کی) نمبر گیم پوری ہو گئی۔ گیم ہمارے ہاتھ میں ہے۔ آپ کیا سمجھے؟ یہ کہ خان صاحب کے ساتھیوں کو پتہ چل گیا تھا کہ گیم از اوور‘ خان صاحب آخر وقت تک یہی سمجھتے رہے کہ گیم از ناٹ اوور‘ بدستور ہمارے ہاتھ میں ہے۔
اب بھی صوتحال وہی ہے۔ جو ”ہونی“ خان صاحب کے ساتھیوں کو نظر آرہی ہے‘ وہ خان صاحب دیکھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں اپنے ساتھیوں کی بھاری اکثریت کی معنے خیز خاموشی کے معنے بھی سمجھ میں نہیںآرہے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے کہ آخر کیوں ان کے صرف چند ساتھی ہی بول رہے ہیں‘ باقی پر چپ کیوں طاری ہو گئی ہے؟
خان صاحب کے مداح سمجھتے ہیں کہ ان کا خان دیوار کے پار بھی دیکھ لیتا ہے۔ شاید ایسا ہی ہو‘ لیکن دیوار کے پار دیکھ لینے والا دیوار پر لکھے کو نہیں دیکھ پا رہا۔ یا للعجب!
دوسری لیک میں خان صاحب ساتھیوں کو تلقین کر رہے ہیں کہ میر جعفر‘ میر صادق اور غداری والا بیانیہ عوام کے منہ میں چمچ بھر بھر کر ڈالنا ہے۔ اس کی تلقین پر عمل ہوا اور یہی ایک نہیں‘ کئی بیانیے اتنے چمچ بھر بھر کر عوام کے منہ میں انڈیلے گئے کہ معدہ ہی الٹ گیا۔ بیانیوں سے پیدا ہونے والی متلی نے دل کھٹے کر دیئے اور وہ منزل آگئی کہ بیانئے بے اثر ہوگئے اور اب تو بیانیوں کی بنیاد بھی ایسی کھلی کہ کھد کر رہ گئی۔
آڈیوز میں خان صاحب نے بتایا کہ میں بھی کئی چالیں چل رہا ہوں‘ لیکن پانچ چھ مہینے کا میزانیہ کیا ہے؟ یہ کہ بہت سی چالیںچلیں چلی ایک بھی نہیں۔ ایک چال تو وہ تھی جس کا خفیہ نتیجہ بھی بڑا خطرناک ہے۔ چال یہ تھی کہ سپیکر تحریک عدم اعتماد کو پیش ہی نہیںہونے دے گا چنانچہ قاسم سوری نے تحریک مسترد کر دی۔ یہ چال بہت بڑی خفت کے ساتھ ناکام ہوئی اور خفیہ نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے سپیکر کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے جو ریمارکس دیئے‘ وہ کچھ یوں تھے کہ آئین کی خلاف ورزی کی گئی۔
خفیہ سے زیادہ یہ خفتہ نتیجہ ہے۔ کسی بھی دن جاگ اٹھا تو بڑی آفت نازل ہوگی۔ اور یقینا ہر سونے والی شے نے ایک نہ ایک دن جاگ اٹھنا ہے۔
................
قومی اسمبلی سے استعفے دینے والی چال سے لیکر 25 مئی کے دھرنے کی چال تک چالبازی کا ایک لمبا تسلسل ہے‘ لیکن کیا ملا؟ مجبوری تیرا نام کمزوری ہے اور مجبوری کا یہ عالم آگیا کہ خود کو سیاسی طورپر زندہ رکھنے کیلئے ہر روز جلسہ کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ہر روز گلوکوز کی نئی بوتل ہر شام آکسیجن کا نیا سلنڈر۔ ایسا کب تک چلے گا۔ خان صاحب کوچھوڑ کر سب کو علم ہے۔
................
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فرمایا ہے کہ کسی ملک یا گروہ کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ پاکستان کو اقتصادی یا سیاسی طورپر غیرمستحکم کر سکے۔
کیا مطلب؟ یہی کہ پاکستان کو سری لنکا بنانا اتنا آسان نہیں جتنا کچھ عناصر یا کسی دشمن ملک نے سوچ رکھا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے شیخ رشید صاحب؟
................
اقتصادیات سے یاد آیا۔ ڈالر کی قدر مسلسل گر رہی ہے اور روپے کی قدر بڑھ رہی ہے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ یہ تو محض ڈر کے مارے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور سٹہ کھیلنے والوں کی سٹی گم ہوئی ہے‘ میں نے تو ابھی کچھ کہا ہی نہیں‘ میں نے تو ابھی ڈنڈا چلایا ہی نہیں۔
یعنی ڈنڈا ڈار صاحب کے ہاتھ میں ہے اور وہ چلانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے خاص طور سے پی ٹی آئی کی حوصلہ شکنی کیلئے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جلد ڈالر 200 سے بھی نیچے آجائے گا۔
ڈار صاحب جب نواز شریف کے دور حکومت میں وزیرخزانہ تھے‘ یہی آج سے کوئی پانچ سال پہلے تک تو ڈالر کو پوری طرح قابو کرکے رکھا تھا۔ پی ٹی آئی نے یہ ”راز“ فاش کیا کہ ڈالر نے مصنوعی طورپر روپے کا قد کاٹھ اتنا بڑا کر رکھا ہے ورنہ تو روپیہ دو ٹکے کا بھی نہیں اور پھر جب پی ٹی آئی کو حکومت ملی تو اس نے کہا سچ کر دکھایا اور روپے کو واقعتاً ٹکے ٹوکری کر دیا۔
اب ڈار صاحب پھر اپنا مصنوعی والا ہتھیار لئے میدان میں ہیں تو پی ٹی آئی نے چپ کی چادر تان لی ہے۔ ابھی تک ایک بیان بھی نہیں آیا کہ روپیہ کو اٹھانے کی کوششیں مصنوعی ہیں۔
پتہ نہیں اس بار کیا راز ہے۔