حضور نبی اکرم ؐ کی جود و سخا کی کوئی نظیرہے نہ کوئی مثال …آپ ؐنے بیک وقت مال و دولت کے خزانے بھی لٹا دیئے اور علم و فضل کے دریا بھی بہا دیئے۔آپ ؐنے علم و اسرار و رموز بھی افشاء کئے اور اپنے افعال سے عمل کے دروازے بھی کھلوائے۔اپنے علم سے سُچے موتیوں کے خزانے بھی لٹائے اور اپنے حلم سے عفو و کرم کے دریا بھی بہائے۔آپ ؐ جیسا سخی اور عطا کرنے والا نہ کبھی دیکھااور نہ کبھی سُنانہ کبھی تھا اور نہ کبھی ہوگا۔ایک دفعہ آپ ؐکے پاس کہیں سے 90 ہزار درہم آئے۔آپ ؐ نے وہیں کھڑے کھڑے سب تقسیم کرادیئے۔ختم ہونے کے بعد ایک سائل آیا تو آپ ؐنے فرمایا کہ کچھ باقی نہیں بچا۔آپ ؐاسے خالی ہاتھ لوٹانا نہیں چاہتے تھے ،چنانچہ فرمایا:۔’’تم کسی سے میرے نام پر قرض لے لو،میرے پاس جب ہوگئے تو اسے ادا کر دونگا‘‘حضرت جابرؓ فرماتے ہیںکہ حضور کریم ؐ کے در سے کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ نہیں لوٹا،جُودوسخا آپ ؐ کی فطرت تھی۔آپ ؐ نہ صرف مال و دولت کے معاملے میں سخی تھے بلکہ آ پ ؐنے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کو بھی جس طرح لوگوں میں بانٹا وہ بھی بے مثال ہے اور آپ ؐ کا اسوئہ حسنہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت ہے کہ آپؐ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔آپؐ خصوصاََرمضان المبارک میں بہت زیادہ سخاوت فرماتے۔آپ ؐنے کبھی کسی سائل کو (نہیں)کا لفظ کہہ کر ناراض نہیں کیا۔ایک دفعہ ایک شخص نے حضور ؐکریم کی خدمت میں حاضر ہوکر بکریوں کا ریوڑ مانگ لیا۔آپ ؐنے عطا فرما دیا ،اس شخص نے اپنے قبیلہ میں جاکر لوگوں سے کہا کہ اسلام قبول کرلو کیونکہ محمدرسول اللہؐ ایسے فیاض ہیںکہ مفلس ہوجانے کی کبھی پرواہ نہیں کرتے۔آپ ؐ کی فیاضی کا یہ عالم تھا کہ اگر پاس ہوتا تو ضرور عطا فرما دیتے اگر نہ ہوتا تو وعدہ فرما دیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ عین اقامت نماز کے وقت ایک بدو نے آکر عرض کیا یارسول اللہ ؐ میری ایک معمولی سی حاجت باقی رہ گئی ہے۔ایسا نہ ہو کہ بھول جائوں اسلئے آپؐ اسی وقت اسکو پورا فرما دیجئے چنانچہ آپؐ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اور اسکی حاجت پوری کرنے کے بعد آکر نماز ادا فرمائی بعض اوقات آپ ؐ کسی چیز کی قیمت ادا کرنے کے فوراََ بعد کسی دوسرے کو بطورِ عطیہ عنایت فرمادیتے تھے ۔ ایک اونٹ حضرت عمر ؓ سے خرید کر اسی وقت عبداللہ بن عمر کو عطا فرما دیا تھا۔اُم المؤمنین حضرت اُمِ سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ پیارے حضور ؐ گھر تشریف لائے تو پریشان دکھائی دئیے ۔پو چھنے پرآپ ؐنے فرما یا کل سات دینار آئے تھے۔شام ہو گئی وہ بستر پر پڑے رہ گئے اور تقسیم نہ ہو سکے وہ لینے آیا ہوں۔حضرت ابو ذر ؓروایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور کریم ؐنے فرمایا :۔اے ابو ذرؓ اگر اُحد کا پہاڑ میرے لئے سونا ہو جائے تو میں کبھی پسند نہیں کروں گا کہ تین راتیں گزر جائیں اور میرے پاس ایک دینا ر بھی با قی رہ جا ئے۔سوائے اس دینا ر کے جو ادائے قرض کے لئے چھوڑدوں۔ ایک دفعہ حضور اکر م ؐ عصر پڑھ کر خلاف معمو ل گھر کے اندر تشریف لے گئے اور پھر فوراََ واپس تشریف لے آئے ۔لوگو ں نے تعجب سے پو چھا تو آپ ؐنے فرما یا کہ مجھے نماز میں یا د آیاکہ کچھ سو نا گھر میں پڑا رہ گیا ہے۔ گما ن ہو ا کہ کہیں رات ہو جائے اور وہ گھر میں پڑارہ جائے اسلئے اندر جا کر اسے خیرات کر دینے کے لئے کہہ آیا ہوں۔