حضور ﷺ پیکر نور اور شاہکار فطرت

Oct 09, 2022


ایک یہ جہاں اور، ایک وہ جہاں ،ان دونوں جہانوں کے درمیان صرف ایک سانس کا فاصلہ ہے اگر چل رہی ہے تو یہ جہاں ، رک جائے تو وہ جہاں ۔ سانسوں کے اس تسلسل کو رحمت عالم ﷺ پر درودسے بھرپور کر لیا جائے تو اس جہان کا سفر آسان ہو جائے گا۔ آپ ؐ کی ذات غموں سے عاری،حصولِ رضائے الہٰی اور آخرت کی کامیابی کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ؐکی ولادت باسعادت سے وصال تک پوری زندگی دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ابد تک رہنمائی اور وسیلہ مغفرت ہے۔اللہ تعالی نے اپنے محبوب آقائے دوجہاں ﷺ پر دین مکمل کر دیا ۔
حضور اکرمﷺ سراپا اعجاز اور پیکر نور ہیں۔ دل سے نگاہ تک، روح سے جسم تک سر سے پائے مقدس تک اعجاز مجسم اور شاہکار فطرت ہیں ۔ عظمتِ مصطفیﷺ کا چرچا، جب سے انسان دھرتی پر اترا ہے تب سے ہے اور اس کااعتراف اغیار نے بھی کیا ہے۔اللہ کی وحدانیت کا یقین آپؐ کی آمد سے پہلے بھی تھا کہ آپ ؐ ہی اس کا نقطہ آغاز ہیں اور آپ ؐ نے ہی اسے مکمل کیا اور یہ قیامت تک جاری رہے گا۔آپؐ کی آمد کا ذکرتو ہندوئوں سمیت دیگر مذاہب کی کتابوں سے بھی ہوتا ہے جس کی تاریخ تقریبا چھ ہزار سال پرانی ہے ۔ چند سال قبل پنڈت وید پرکاش اپادھیا نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ ہندو عرصہ دراز سے جس کالکی اوتار(ہادی عالم) کا انتظار کر رہے ہیں اس کا ظہور ہو چکا ہے ۔ وہ حضرت محمد ﷺ ہی ہیں۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب وید میں لکھا ہے کہ بھگوان کاآخری پیغمبر(کالکی اوتار) ہو گا جو ایک بڑے جزیرے پر جنم لے گا اور پوری دنیا کو رہنمائی فراہم کرے گا ، یہ بات حضرت محمد ﷺ پر صادق آتی ہے۔ گوتم بدھ کی کتابوں میں آپ کا لقب’’ میتر‘‘ (یعنی رحمت اللعالمین) موجود ہے۔ گوتم بدھ نے دونشانیوں کا بھی کر کیا ، پہلی یہ کہ آپ ؐپر ایک کتاب نازل ہو گی جس کو جتنا پڑھا جائے گا اتناہی سننے کو دل کرے گا۔دوسرا،آپؐ کا دین ایسے پھیلے گا جیسے اولے اور بھٹے میں آگ پھیلتی ہے۔انجیل برناباس 553تک اسکندریہ کے گرجا گھروں میں مستند انجیل سمجھی جاتی ہے اس کے کئی صفحات پر سرکارِدوعالم ؐکا ذکر ہے۔عجائبات ولادت کے واقعات کے مطابق کسریٰ کے محل میں زلزلہ آنا اور اس کے چودہ کنگروں کا گر پڑنا، بحیرہ طبریہ کا اچانک خشک ہو جانا ، فار س کے ایک ہزار سال سے جلتے آتش کدہ کا بجھ جانا،سادہ کی خشک ندی کا پانی سے لبالب بھر جانا ، یہ سب ہادی عالم ؐؐکی آمد کی نشانیاں تھیں۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے: اللہ نورالسموات والارض۔اللہ تعالی کائنات(ارض و سما) کا نور ہے۔ زمین اور ٓسمانوں کے بیچ جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا نور ہے۔ہر شے کا وجود اسی نور سے وابستہ ہے۔حضرت عبدالرزاق رضی اللہ عنہ نے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ان کے سوال کے جواب میں فرمایا ’’اے جابر اللہ تعالی نے تمام اشیا ء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا ۔پھر وہ نور اللہ کی قدرت سے جہاں اللہ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم۔نہ بہشت ، نہ دوزخ۔ نہ فرشتے نہ آسمان اور سورج چاند ستارے۔ نہ جن اور نہ انسان، اس روایت سے نور محمدی کا سب سے پہلے پیدا ہونا اور زمین و آسمان کی ہر شے سے اولیت ثابت ہے۔یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے تیرے نبی کانور اپنے نور سے پیدا کیا ہے۔یعنی نور محمدی اسی نور سے تخلیق کیا گیا جس کی طرف قرآن مجید کی درج بالا آیت میں اشارہ ہے۔حضرت ارباز بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ بے شک حق و تعالی کے نزدیک خاتم النبین ہو چکا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنے خمیر میں ہی پڑے تھے۔(احمد۔بیقہی اور حاکم نے بھی اس کو صحیح الانساد کہا ہے اور مشکوۃ میں شرح السنہ سے بھی یہ حدیث مذکور ہے)۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے سوال کیا کہ یارسول ﷺ آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہو چکی تھی، تو آپ نے فرمایا کہ’’ جس وقت حضرت آدام علیہ السلام جسم اور روح کے درمیان تھے‘‘حضرت علی بن الحسین رضی اللہ عنہ یعنی امام زین العابدین نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی سند نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار سال پہلے اپنے خالق حقیقی کے حضور میں’’ایک نور تھا‘‘۔جب اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کو پیدا کرنے کا ارداہ کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو سفید مٹی لانے کا حکم دیا ۔ وہ زمین پر اترے اور حضور ﷺ کی قبر مبارک کی جگہ سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لائے ( یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا حجرہ تھا اور بعد میں آپ ﷺ کا روضہ بنا)پھر چشمہ تسنیم سے اس سفید مٹی کو گوندھا گیا جس کی روشنی چاروں طرف نظر آتی تھی ۔فرشتے اسے لے کر آسمانوں او زمینوں پر پھرے۔آپ ﷺ کو حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے پہچان لیا گیا۔ جب حضرت آدم کو پیدا کیا گیا تو یہ نور پشت مبارک میں ودیعت کر دیا گیا۔ان سے یہ نور حضرت حوا علیہ السلام میں منتقل ہو گیا اور اس طرح یہ نور پاک پشتوں سے پاک ارحام میں منتقل ہوتا رہا اور بالآخر آپ ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ تک پہنچا۔

مزیدخبریں