اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع کیا۔ یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور زمانوں میں انسانی رشدو ہدایت کے فرائض ادا کرتا رہا اور بالآخر یہ زریں سلسلہ سید المرسلین خاتم النبین ؐ پر مکمل اور ختم فرما دیا گیا۔آپؐ آخری اور کامل شمع ہدایت لیکر روئے زمین کی ظلمت و جہالت کو مٹانے کیلئے آئے اور اپنے اخلاق حسنہ اور تعلیمات خداوندی سے کفر و شر میں ڈوبے دلوں کو خوف الٰہی اور ذکر الٰہی سے یوں منور کیاکہ
’’عرب جس پہ قرنو ں سے تھا جہل چھایا،
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا‘‘
آج پوری نوع انسانی کے پاس خاتم النبین حضرت محمد مصطفیؐ کی تعلیمات ہی آخری اور حتمی سرچشمہ ہدایت ہیں۔اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میںنبی کریمؐ کی حیات طیبہ کو ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃحسنہ
’’تمہارے لیے رسول اللہؐ کی زندگی بہترین نمونہ ہے ‘‘ ۔
اللہ تعالی نے نبی کریم ؐکو مبعوث فرما کر دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں کی بلکہ نبوت و راہنمائی کے سلسلے کو بھی آپ ؐکی ذات اقدس پرکامل اور ختم کر دیا ہے کہ آج کے بعد ایسے اعلیٰ و ارفع اخلاق و کرداراور سیرت و شریعت کی کوئی صورت یا نوع اظہار کا تصور بھی ناگزیر ہے کہ جس کی اطاعت و پیروی کرنے کی اجازت یا ضرورت ہو۔اسی لیے قرآن پاک میں باربار تاکید کی گئی ہے کہ آپ ؐ کی اطاعت و اتباع میں ہی دونوں جہانوں کی کامیابی مضمر ہے۔ بے شک آپؐ کی تعلیمات اور حسن کردار وہ نور ہدایت ہے جس پر عمل کرنیوالوں نے فلاح پائی۔ بعثت سے پہلے اہل عرب ہی نہیں ایک مکمل دنیا تہذیبی ، اخلاقی اور معاشرتی گراوٹ کا شکار تھی۔ وحدانیت کا تصور گہناچکا تھا ، قبائل اپنے ہاتھ سے تراشے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز تھے ،کفر و شر تو جیسے انکی گھٹی میں پڑا تھاجسے جائز بنانے کیلئے یہودی و عیسا ئی شریعت کے وضع کردہ ضابطہ حیات کی جگہ اپنی طبیعت اور پسند کے مطابق اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کے مرتکب ہو چکے تھے۔الغرض انسانیت آخری سانسیں گن رہی تھی ، جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ اس دور کا انسان بربادی کے دہانے پر کھڑا تھا کہ رحمت حق کو رحم آیا اور ان کی رشد و ہدایت کیلئے اپنا پیغمبر بھیجا جس نے پیغام ربانی دیا کہ : اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہو اور فلاح پا جائو ‘‘اور مشرکوں کو یہ شعور دیا کہ ’’اس اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے ہووہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلے کے برابر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے ‘‘یہ پیغام اس قدر طاقتور تھا کہ ہر وہ کہ جس میں عقل سلیم تھی اور اسے قبر و حشر میں نجات مطلوب تھی سوچنے پر اور بالآخر پیرویٔ رسول پر آمادہ ہوگیا اور فتنہ و فساد کا آتش فشاں ہمیشہ کیلئے سرد ہوگیا ۔اللہ تعالی نے اس ہادی کاملؐ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجااور اوصاف حمیدہ کا یہ عالم تھا کہ مسلمان تو مسلمان کفار مکہ بھی آپؐ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔ جو ایک بار مل لیتا وہ کلمہ حق پڑھنے پر تیار ہو جاتا۔ میرے پیارے نبی ؐ نے پیغام حق سے زنگ آلود دلوں کو منور کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بت پرست بت شکن بنے ، توہم پرست ہادی برحق کے متوالے بنے،بدکار پرہیز گار بنے ،ظالم مہربان ہوئے ، ریاکار وفادار ہوئے ، شرابی اور جواری تہجد گزار ہوئے، آپس میں دست و گریبان رہنے والے شیر و شکر ہوئے ،عورتوں کو جاگیر سمجھنے والے نگہبان بنے ، راہزن راہبر ہوئے اور ظالم عادل بن گئے ،شاہ و فقیر ایک ہی دستر خوان پر تناول چننے لگے ،نفرت و عداوت ایثار و قربانی میں بدل گئی ۔ عبادات کی تربیت نے سب کو احترام میں ایسا برابر کیا کہ اجنبی بھائی بھائی بن گئے ۔قارئین کرام ! بلاشبہ میرے نبی پاکؐ کی ہمہ گیر شخصیت اوراوصاف کے بیان کیلئے ساری دنیا کے قلم اور کاغذ نا کافی ہیں اور نہ مجھ میں اتنی قابلیت ہے کہ میں اس ذات مبارکہ کی مدحت بیان کروں جو پوری دنیا کیلئے ہدایت کا سرچشمہ ہیںمیرا قلم تو اس ارفع ذات کا ایک گوشہ بھی بیان نہیں کر پایا بس اتنا کہوں گی کہ آج پورے عالم اسلام اور پوری انسانیت کیلئے ضروری ہے کہ آپؐ کے اوصاف حمیدہ کا مطالعہ کریں اور دونوں جہانوں سے نجات کیلئے سیرت رسولؐ تک محدود رہیں ۔ انسانی معاشرے تعلیم و تربیت ۔ اخلاق حسنہ اور عدل و انصاف سے ہی عروج و استحکام حاصل کرتے ہیں۔ جو انتشار و بے یقینی ہمارا مقدر بن چکی ہے اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے نبی ؐ کے پیغام کو یکسر فراموش کر دیا ہے، پھر کفار کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں کہ بدعتوں اور بری رسموں کو اپنا لیا ہے بائیں وجہ رذالت و گراوٹ ہمیں مٹا رہی ہے۔ ہم نے بھلا دیا ہے کہ ’’رحمۃ لالعالمین‘‘ کے اُمّتی ہیں۔ ہمیں اسلام نے ہی آزادی اور جداگانہ تشخص بخشا اوربردباری ،تحمل ،عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی تھی جس کا عملی نمونہ آپؐ نے دشمنوں کے ساتھ بھی پیش کیا تھا مگر ہم تو اپنوں کے ہی دشمن بن بیٹھے ہیںکہ بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے ، مسلکی اور مذہبی منافرت پر قتل و غارت گری عام ہے، فحاشی و بے حیائی شان بن گئی ہے ، عورت کا استحصال شدت اختیار کر گیا ہے ،قوم لوط کی برائی بھی ناسور کی طرح پھیل رہی ہے ، ہماری پیشانیاں پھر پتھروں اور قبروں کے آگے جھکنے لگی ہیں اور ہم نے اللہ کے سوا ہر کس و ناکس کوحاجت روا بنا لیا ہے کہ کلیسا و مندر کے بت کدوں میں سر ٹکرا رہے ہیں مگر اس پیغام کو اپنانے سے جھجک رہے ہیں کہ قرآن فہمی اور تعلیمات ختم الرسل ؐ پر عمل میں ہی نجات ہے ۔
تعلیمات ختم الرسل ؐ پر عمل میں ہی نجات ہے
Oct 09, 2022