غصہ درحقیقت شدت جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ یہ ایک غیر اختیاری امر ہے اور ہر انسان میں قدرتی طور پر موجود ہے۔غصہ بعض صورتوں میں ضروری ہوجاتاہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ اگر آپ کے سامنے کوئی خلاف شریعت کام ہورہا تو ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے کہ انسان کوطیش یعنی غصہ آجاتا ہے جو انتہائی ضروری ہے۔غصہ اکثروبیشتر تفریق کا باعث بنتا ہے جو انتہائی غلط ہوجاتا ہے اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ جوش میں بھی ہوش نہیں کھونا چاہئے۔غصہ اور اشتعال اگرچہ شیطانی اعمال ہیں لیکن قرآن پاک نے ہمیں ہمیشہ عفو ودرگزر کا ہی حکم دیا ہے۔اس سلسلے میں قرآن پاک میںمختلف آیات موجود ہیں۔غصہ ایمان اور عمل کیلئے انتہائی مہلک ہے۔خلاف مزاج کسی واقعے پرجب انسان بے قابو ہوجاتا ہے توتمام شرعی رکاوٹیں اس کیلئے بے اعتبار ہوجاتی ہیں اور وہ غصے کی حالت میں جو چاہتا کرگزرتا ہے۔ اس وجہ سے احادیث میںغیض وغضب سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
حضور اکرم ؐ کی حیاتِ مبارکہ بنی نوعِ انسان کیلئے ہر حیثیت سے بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ نے عفو و درگزر کی تعلیم دی اور خود اس پر عمل کرکے نمونہ پیش کیا۔ حضور اکرم ؐ کی ساری زندگی عفو ودرگزر، معافی اور تحمل اور برداشت کا حسین مرقع ہے۔ قراؐنِ مجید میں معاف کردینے، دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنے اور صبر و برداشت کی تلقین کی گئی ہے۔اللہ کی صفات میں معاف کردینے کی صفت عظیم شامل ہے۔ اللہ کے بندوں کو بھی حکم ہے کہ اللہ کی صفات اپنے اندرپیدا کرو۔
اللہ تعالیٰ کی ہدایات کیمطابق عفو و درگزر کی تعلیمات پر عمل کا بہترین نمونہ حضور اکرم ؐ کی زندگی میں ملتا ہے۔ کفارِ مکہ نے حضور اکرم ؐ پر ظلم و ستم ڈھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی لیکن نبی کریمؐ نے عفو ودرگزر سے کام لیا۔
حضور اکرمؐ کا یہ حسنِ اخلاق اور عفوودرگزر کا معاملہ سب کیلئے تھا، یہ کسی خاص طبقے تک محدود نہ تھا بلکہ آپؐ نے میدان جنگ کے دشمنوں، یہودیوں، منافقوں اور کافروں سب کے ساتھ تحمل و برداشت اور معاف کر دینے کا جو اعلیٰ کردار پیش کیا اس کی نظیر انسانی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔
حضور کا اسوہ حسنہ اختیار کرنے ہی میں انسانی مسائل کا حل ہے۔ آج بھی انسان طرح طرح کی روحانی، مادی، معاشی اور سماجی پریشانیوں میںگھرا ہوا ہے اور اسکے مسائل روز افزوں ہیں۔ ہر طرف تعلیم و تہذیب کی ترقی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں لیکن معاشرتی مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ عدالتیں مقدمات سے بھری پڑی ہیں، انتقامی جذبات کی شدت اورعفو و درگزر سے کام نہ لینے کے باعث معاشرہ نفرتوں، کدورتوں اور دشمنیوں سے بھرا ہوا ہے۔
معاف کرنے کے جذبہ کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ تصور بھی ہمیشہ موجودرہے کہ جیسے ہی ہماری زندگی کا چراغ بجھے گا ہماری قوت، طاقت اور سربراہ ہونے کی حیثیت ختم ہوجائے گی پھر ہم اپنے رب کے حضور مجرم کی طرح پیش کیے جائیں گے جہاں ہم اپنے رب سے معافی کے طلبگار ہوں گے اور اللہ تعالی قدرت کاملہ کے باوجود غلط کاروں اور مجرموں کو معاف فرما دیگا۔یہ تصور ہمیں غیر ضروری طور پر مشتعل و غضبناک ہوتے ہوئے ہلکے پن کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انتہائی سنجیدگی و متانت کے ساتھ اپنے ماتحتین کو معاف کرنے کا سلیقہ سکھائے گا۔ فریق مخالف کو معاف کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری غلط سوچ ہے۔
رسول اللہؐ کی مبارک زندگی میں عفو و درگزر ،رحم و کرم، محبت و شفقت اورپیار ہی پیارنظر آتاہے۔آپ نے پوری زندگی کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔کسی پر ہاتھ نہیں اٹھا یا۔ کسی کو برابھلا نہیں کہا۔عفو و درگزراور رحم وکرم کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہؐ نے ان تمام دشمنوں کو معاف فرمادیا جنہوں نے چند ماہ نہیں متواترؐ سال تک مکہ میں آپ پراور آپکے صحا بہ کرامؐ پر عرصہ حیات تنگ کررکھا۔طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے اور آپ کو اپنا محبوب وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔
طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے مگر وہاں پر نبیؐ کا جواب تھا کہ’’اگر ان لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا تو انکی نسلیں ضروراسلام سے وابستہ ہوں گی۔دشمنوںسے انتقام کاسب سے بڑا موقع فتح مکہ تھا۔مگر آپؐ نے سب کومعاف کردیا۔وہ لوگ جوخون کے پیاسے تھے اورجن کے دست ستم سے آپؐ نے طرح طرح کی اذیتیں برداشت اٹھائیں تھیں۔ان سب کو حضورؐ نے معاف فرما دیا۔ آپؐکی سیرت پاک اور حیات طیبہ کا وہ تاریخ ساز پہلو ہے جو ہمیں غصے اور اشتعال کی راہ کو چھوڑ کرعفو ودرگزراور صبروبرداشت کی تعلیم دیتا ہے۔
عفو ودرگزر اور اسوہ ٔرسول ﷺ
Oct 09, 2022