مدنی سرکارؐدِیاں گلیاں  (2)  


ستمبر 1991ء کو، صدرِ پاکستان ، غلام اسحاق خان کو، اپنی حکومتی ارکان اور میڈیا ٹیم کے ارکان کے ساتھ پہلے جمہوریہ ترکیہ اور پھر سعودی عرب کے دورے پر جانا تھا، جب ’’ پی ۔ آئی ۔ اے ‘‘  کے ایک مخصوص طیارے کے انقرہ کے لئے روانگی سے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عبداُلستار لالیکا صاحب نے مجھے بتایا کہ’’ برادرم اثر چوہان!۔ کہ اِس دورے کا پروگرام مئی 1991ء کا طے تھا۔ پھر جمہوریہ ترکیہ کے کچھ اپنے معاملات کے باعث پروگرام تبدیل ہوگیا تھا۔ اب آپ خوش قسمت ہیں کہ ’’ مئی 1991ء کے پروگرام میں آپ کا نام شامل نہیں تھا!‘‘۔
 معزز قارئین !۔ مَیں بہت حیران ہُوا اور خُوش بھی ۔ مَیں نے لالیکا صاحب سے کہا کہ ’’ لالیکا صاحب! کیا واقعی صدرِ پاکستان میرے بغیر جمہوریہ ترکیہ اور سعودی عرب نہیں جاسکتے تھے ؟اور مَیں واقعی اتنا خوش قسمت ہُوں کہ ، مجھے صدرِ پاکستان کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت ہونے والی ہے ؟‘‘۔ 
مَیں آج بھی کبھی کبھی تصّور میں سوچتا ہُوں کہ ’’ مجھے مدینہ منورہ کی گلیوں میں چلتی گاڑی میں بیٹھ کر، گاڑی سے اُتر کر ، پیدل چل کر اور کبھی کبھی زمین پر بیٹھ کر ’’ سارے جگ تو نرالیاں ، مدنی سرکار ؐدِیاں گلیاں ‘‘ کیسے دیکھنے کی سعادت حاصل ہوگئی ؟ ‘‘۔ کبھی کبھی تو، مجھے مدنی سرکار ؐ کے قدموں کی چاپ بھی سُنائی دیتی تھی۔ جب میرا کوئی رشتہ دار یا دوست حج یا عمرے کی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو، مَیں اُس سے مدنی سرکارؐ کی گلیوں کے بارے میں ضرور پوچھتا ہُوں۔ 
 1962ء سے میرے سینئر صحافی دوست روزنامہ ’’ جرأت ‘‘ کے چیف ایڈیٹر برادرم جمیل اطہر قاضی نے ،کئی بار حج اور عُمرے کی سعادت حاصل کی۔ اُنہیں ’’مدنی سرکارؐ دِیاں گلیاں ‘‘کئی بار دیکھنے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ مَیں 1974ء میں پہلی بار حج پر گیا اور مدینہ منّورہ میں پاکستان ہائوس ٹھہرا تھا ۔ اچانک مَیں نے ،اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی تو مجھے سامنے گُنبد ِ خضرا ء نظر آیا۔ مَیں خوف سے کانپ گیا کہ ۔’’میرا کمرہ تو اونچائی پر ہے ، کہیں مجھ سے گُستاخی تو نہیں ہوگئی۔ مجھے بخار چڑھ گیا تھا!‘‘۔ 
ستمبر 2016ء کے اوائل میں میرے مرحوم دوست تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری محمد اکرم طورؔ کے فرزند ،اُردواور پنجابی کے نامور شاعر اور روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن ، برادرِ عزیز و گرامی سعید آسیؔ نے حج بیت اللہ کا ثواب حاصل کِیا ، جس پر ’’نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ حج تے نالے پیار!‘‘ لیکن اُس سے پہلے 1976ء میں سعید آسی ؔ صاحب اور ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید (اب مرحوم) نے مجھے بتایا تھا کہ’’  1976ء سے روضہ رسول مقبولؐ کے خادم ،رحیم یار خان کے صوفی نذیر احمد عباسی کہتے تھے کہ ’’ میرے لئے ’’ مدنی سرکار دِیاں گلیاں ‘‘ باعث راحت ہیں !‘‘۔ 1981ء سے میرے دوست ، 2013ء سے جنابِ مجید نظامیؒ کے نامزد برطانیہ میں ’’ نظریۂ پاکستان فورم‘‘ کے چیئرمین ’’ بابائے امن ‘‘ ملک غلام ربانی نے بتایا کہ ’’ مجھے بھی صوفی نذیر احمد عباسی نے ’’ مدنی سرکار دِیاں گلیاں ‘‘ کی زیارت کرائی تھی۔ 
معزز قارئین!۔ ستمبر 1991ء میں مجھے ، صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے عمرے کے موقع پر اُن کے ساتھ خانہ ٔ  کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی اور پھر مدینہ منورہ میں ’’جنّت اُلبقیع‘‘ کی زیارت کا بھی موقع مِلا۔ ’’جنّت اُلبقیع‘‘ میں ِ ’’ تربتِ خاتونِ جنّت ‘‘ کو دیکھ کر بہت اُداسی ہُوئی۔ مجھے ’’ جنّت اُلبقیع ‘‘ پر نامور صحافی اور شاعر آغا شورش ؔکاشمیر ی کے یہ دو شعر بہت یاد آئے …
اِس سانحہ سے گنبد خضریٰ ہے، پُر ملال!
لخت ِ دِل رسولؐ  کی تُربت ہے ، خَستہ حال
…O…
جِس کی نگاہ میں بنت ِ نبیؐ  کی حیا نہ ہو
اُس قوم کا نوشتۂ تقدیر ہے زوال
…O…
 ’’ مَصَابیح اُلجِنان‘‘
معزز قارئین !۔ 2007ء میں ،تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سیکرٹری سیّد قمر حیدر زیدی اور سیّد رضا کاظمی ، اپنے ساتھ دانشور ، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی کو ساتھ لے کر ، اسلام آباد میں میرے گھر تشریف لائے اور اُنہوں نے مجھے کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب !۔ راولپنڈی کے ایک حقیقی درویش ، ’’ تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سربراہ آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی ( اب مرحوم) کی فرمائش ہے کہ ، آپ سیّد عباس کاظمی کی کتاب ’’ مَصَابیح اُلجِنان‘‘ کا پیش لفظ لکھ دیں!‘‘ ۔  ’’ مَصَابیح اُلجِنان‘‘ (جنت کے چراغ) ’’ جنّت اُلبقیع ‘‘ ۔ مَیں نے کتاب کا پیش لفظ لِکھ دِیا ۔اُس کے آخر میں سیّد عباس کاظمی نے لکھا کہ ’’ صحافی ، دانشور اور شاعر اثر چوہان صاحب اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں اور موصوف آئمہ اطہار کا بہت احترام کرتے ہیں ‘‘۔

’’خاتون ِ جنت اور علاّمہ اقبالؒ ! ‘‘
 عاشق رسولؐ ، علاّمہ اقبالؒ نے اپنی تصنیف ’’ رموزِ بے خودی‘‘ میں سیّد اُلنساء حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … 
’’ رشتہ ٔ  آئین ِ حق ، زنجیر ما ست
پاس فرمانِ جنابِ مصطفی است
…O…
ورنہ گردِ تُربتش گردید مے
سجدہ ہا برخاکِ او پا شِید مے‘‘ 
…O…
یعنی۔ ’’شریعت حقہ کے حکام میرے پائوں کی زنجیر بنے ہُوئے ہیں ، مجھے جنابِ مصطفی ؐ کے فرمان کا پاس ہے۔ ورنہ مَیں سیّدہ فاطمہؓ کی تُربت کے گرد طواف کرتا اور اُن کی قبر پرسجدہ ریز ہوتا‘‘۔
معززقارئین !۔بہر حال آج ’’ مدنی سرکار ؐ دِیاں گلیاں ‘‘ کے اپنے کالم میں مَیں اپنی نعت ِرسول مقبولؐ پیش کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں… 
یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا
ارض و سماء ، ہے حلقۂ اَنوار ، آپؐ کا
…O…
شمس و قمر میں رَوشنی ، ہے آپؐ کے طُفیل
خُلدِ برِیں ہے آپؐ کا ، سَنسار آپؐ کا
…O…
ہر رِند و پارسا کے لئے ، اِذنِ عام ہے
رحمت کا سائبان ہے ، دربار آپؐ کا
…O…
مخلُوقِ کائنات ہو یا خالقِ عظِیم
مِدحت سَرا ہے ، ہر کوئی سرکار آپؐ کا
…O…
حقّ کی عطا سے ، صاحبِ لَوح و قلم ہیں آپؐ 
قُرآنِ پاک بھی ہُوا، شَہہ کار آپؐ کا
…O…
مولا علیؓ و زَہراؓ، حسنؓ اور حُسینؓ سے
عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا
…O…
عاصی! اثر ؔچوہان کی جُرأت تو دیکھئے؟

یہ کم نظر ہے ، طالبِ دِیدار آپؐ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن