انسان اپنی تخلیق کے اول روز ہی سے اپنے خالق کی رہنمائی کا محتاج رہا ہے، خالق نے بھی کسی مرحلہ پر اسے اپنی ہدایت و رہنمائی سے محروم نہیں رکھا اور اس مقصد کے لیے انبیاء و رسل کا ایک طویل سلسلہ قائم کیا جو خالق سے براہ راست رہنمائی حاصل کرنے کے بعد دیگر بنی نوع انسان کی رہنمائی کرتے رہے۔ اس سلسلے کا آغاز اولین انسان حضرت آدم ؑ ہی سے ہو گیا جن کے بعد کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار نبی اور رسول ؑخالق کائنات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کئے گئے یہ انبیاء مختلف اوقات میں مختلف علاقوں اور اقوام کی طرف بھیجے جاتے رہے کہ ان کی راہِ راست پر گامزن ہونے میں مدد و رہنمائی کا فریضہ ادا کریں۔ پھر وہ مرحلہ آیا کہ زمانہ ترقی کرتے کرتے اس مقام پر آ پہنچا جہاں اس کے لیے مستقل اور لازوال ہدایت کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ خالق نے مجموعہ کمالات ہستی، پوری انسانیت کے محسن، انسان کامل، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیؐ کو رحمۃ اللعالمین اور خاتم النبین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپؐ کی انفرادیت اور جامعیت یہ تھی کہ آپؐ کی نبوت کسی خاص علاقہ، قبیلہ، قوم یا زمانہ تک محدود نہ تھی بلکہ آپ پوری بنی نوع انسانیت کے ہادی و رہبر تھے اور آپ کی ہدایت و رہنمائی زمان و مکان کی حدود سے ماورا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ کتاب ہدایت عطا فرمائی جو خود یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ’’لاریب فیہ‘‘ اس میں کوئی شک نہیں اس کا ایک ایک لفظ جامع اصول اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو کسی خاص وقت یا مخصوص قوم یا طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے روشنی کا سر چشمہ ہے اور جب تک دنیا کا وجود باقی ہے ہدایت کے طلب گار اس چشمہ سے سیراب ہوتے رہیں گے۔ رسول رحمت، حضرت محمدؐ نے اسی کتاب ہدایت قرآن مجید، فرقان حمید کی تعلیمات کی روشنی سے چہار دانگ عالم کو منور کیا اور جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی قوم میں صرف چند برسوں میں انقلابی روح پھونک کر دی اور اسے تہذیب و شائستگی کی اعلیٰ ترین منازل سے روشناس کرایا اور دنیا کی قیادت کے منصب سے سرفراز کیا…!!!
اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن حکیم کسی زیر زبر کی تبدیلی کے بغیر آج بھی ہمارے پاس موجود ہے، محسن انسانیتؐ کی سیرت طیبہ کا بھی ایک ایک گوشہ ہماری رہنمائی کے لیے دستیاب ہے جسے قرن اول کے مسلمانوں نے بڑی محنت اور دیانت سے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا تھا مگر اس کے باوجود مسلمان دنیا میں زوال آشنا ہیں، امت مسلمہ کا وجود ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے، کے مصداق ہے ۔جس کا سبب بھی واضح ہے کہ ہم نے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے، ہم دین داری کے دعوے تو کرتے ہیں مگر قرآن حکیم کی حکمت سے استفادہ پر تیار نہیں ہم اس کتاب ہدایت سے ہدایت کے حصول کے لیے اس میں غوطہ زن ہونے، اس پر غور و فکر اور عمل کرنے سے انکاری ہیں اسی طرح زبان سے تو ہم رسول کریمؐ کی ذات پر صدقے واری ہیں مگر ان کی تعلیمات پر عمل سے عاری ہیں آپؐ نے حقوق انسانی کے لافانی منشور خطبۂ حجۃ الوداع میں واضح الفاظ میں پیغام دیا تھا کہ تمام انسان حضرت آدم ؑکی اولاد ہیں کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج ہمیں یہ سبق یاد ہے، ہم قرآن کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں؟ کیا رسول کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہماری عملی زندگیوں میں ہمارا رہبرو رہنما ہے ؟ جواب یقینا نفی میں ہے، ہمارے اتحاد و اتفاق کی بنیاد اسلام، قرآن اور ذات سید الانام نہیں بلکہ ہم نے خود کو طرح طرح کی دیگر جکڑ بندیوں میں باندھ رکھا ہے، ہم اسلام اور مسلمان ہونے پر فخر کرنے کی بجائے ذات، برادری، قبائلی، علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ وابستگیوں کو دین سے زیادہ اہم سمجھتے اور انہی بنیادوں پر جتھے بندیوں کے شکار ہیں حالانکہ علامہ اقبالؒ نے کم و بیش ایک صدی قبل ہمیں انتباہ کیا تھا کہ:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
رسول کریم، خاتم النبینؐ کی ولادت باسعادت کے ماہ مبارک ربیع الاول کا امت سے یہ اہم ترین تقاضا ہے کہ مسلمان باہمی رنجشوں، نفرتوں اور عصبیتوں کو فراموش کر کے اتحاد اور اتفاق کا دامن تھامیں۔ قرآن حکیم اور سیرت سرور عالمؐ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو اسلام کے قالب میں ڈھالنے اور تمام غیر اسلامی رسوم و رواج سے نجات حاصل کرنے کا عزم باالجزم کریں تاکہ پیغامبر انقلاب، شاعر مشرق، مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کو اپنی قوم سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو کہ:
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو؟
بارہ ربیع الاوّل کا پیغام
Oct 09, 2022