نبی رحمتﷺ کا عفو درگذر


مرحبامرحبا……رحمتہ للعالمین،خاتم النبیین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
   قاری محمد سلمان عثمانی
 یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت کی برکت اور آنحضرت ؐکی شان رسالت کے توسط سے امت مسلمہ کو رب کریم کی طرف سے بے پایاں رحمتیں نصیب ہوئیں۔ آپ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت، راہ نمائی اور زندگی گزارنے کا پورا پورا سامان اور تعلیمات لے کر آئے جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ اور کامیابی وکامرانی کا معیار، زینہ اور ضامن ہیں۔ اْمت پر آپؐ کے حقوق و فرائض میں آپ پر ایمان لانا، آپ سے محبت وعقیدت رکھنا، آپ کی تعظیم وتوقیر، اطاعت وفرماں برداری اور آپ کی اتباع وپیروی شامل ہے۔ آپ ؐکی نبوت کی طرح آپؐ کی سیرت بھی عالمی وآفاقی ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے ایسے اصول فراہم کیے ہیں جو نظام عالم کی بقاء کے ضامن،انسانی ومعاشرتی قدروں کا حسن اورتمام انسانیت کے لئے نجات دہندہ ہیں۔           یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف منصف مزاج غیر مسلم دانشوروں نے برملااوربجاطور پر کیا ہے۔معروف ہندوسکالر سوامی لکشمن جی نے جب عمیق نظری سے پیغمبراسلام کی شخصیت کا مطالعہ کیاتواس قدر متاثرہوا کہ آپؐ کی سیرت طیبہ پرپوری کتاب لکھ ڈالی جس کا نام ’’عرب کا چاند‘‘رکھا۔اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ ’’جہالت اور ضلالت کے مرکز اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کوہ فاران کی چوٹیوں سے ایک نورچمکا،جس نے دنیا کی حالت کو یکسربدل دیا،گوشہ گوشہ کو نور ہدایت سے جگمگادیااورذرہ ذرہ کوفروغ تابش حسن سے غیرت خورشید بنا دیا۔آج سے چودہ صدیاں پیشتراسی گمراہ ملک کے شہر مکہ معظمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی جس نے ظلم وستم کی فضاؤں میں تہلکہ مچادیا۔یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا،جس نے اقلیم قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سرسبزوشاداب کردیں۔جہالت وباطل کی تاریکیوں کو دور کرکے ذرے ذرے کو اپنی ایمان پاش روشنی سے جگمگاکررشک طور بنا دیا۔(صفحہ۶۵،۶۶)
 آنحضرت کی سیرت طیبہ کی جامعیت کا عالم یہ ہے کہ جہاں ایک طرف امت کوخطاب کرکے ارشادہوا ترجمہ:’’البتہ تحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسولؐ(کی ذات)میں بہترین نمونہ ہے‘‘ (احزاب:۲۱) وہیں انبیاء کرامؑ کے مقدس ترین جماعت اور افضل الخلائق ہستیوں کومخاطب فرماکرانہیں آپ ؐکی اقتداء اور پیروی کا حکم دیاگیا۔ آنحضرتؐ کے تاابداسوہ حسنہ بننے والی سیرت مبارکہ کے لطائف میں ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ آپؐ کی بچپن سے لڑکپن،لڑکپن سے بچپن،پچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپا اوربڑھاپے سے موت تک غرضیکہ زندگی ایک ایک لمحہ خواہ وہ آپؐ کے بشری وطبعی امور سے متعلق ہو یادینی وشرعی امور سے،مکمل طور پرمحفوظ ہے،یہاں تک کہ بہت سے ایسے امورجن کو عام معاشرتی زندگی میں نظرانداز کردیاجاتاہے اوران کی تحقیق وتفتیش میں کوئی شخص نہیں پڑتاانہیں بھی آپؐ کے مخلص جانثاروں اوربے لوث غلاموں نے اپنے احالہ علمی میں لا کر امت تک پہنچایا۔خادم رسول حضرت انسؓ آپ ؐ کے سراور داڑھی مبارک کے سفید بالوں کی تعداد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ’’آپؐ کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپؐ کے سر اورریش مبارک میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے‘‘(شمائل ترمذی)۔ آپؐ کے سرمہ اورتیل لگانے،کنگا کرنے،جوتا پہننے،تبسم فرمانے،چلنے پھرنے اور اظہارمسرت وغم  کی کیفیت جیسے احوال صحابہ کرام  ؓ نے اگلی نسلوں تک منتقل کئے جو عام طور پر کسی بڑی شخصیت کے سوانح مرتب کرتے وقت ملحوظ نہیں رکھے جاتے۔حضور نبی کریمؐنے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی (بخاری) حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ؐ  تشریف لائے تو آپؐ کے چہرہ انور پر خوشی محسوس ہورہی تھی۔ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ؐ ہم لوگ آپ ؐ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار محسوس کررہے ہیں۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہ میرے پاس فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمد ؐ اللہ عزوجل فرماتا ہے کیا تم لوگ خوش نہیں ہوتے جو شخص تمہارے اوپر ایک مرتبہ درود شریف بھیجے گا تو میں اس شخص پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں گا اور تمہارے میں سے جو شخص (ایک مرتبہ) سلام بھیجے گا تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا‘‘ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے نبی کریم رحمتہ للعالمین کے اسوہء حسنہ پر عمل کر نے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔

ای پیپر دی نیشن