طارق فیضی اور ادبی فیسٹول

Oct 09, 2023

اظہر سلیم مجوکہ

 شہرت نمود و نمائش اور مفاد پرستی کے اس پر آ شوب دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی صلے کے بغیر شعرو ادب کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں ایسے ہی ایک نایاب لوگوں میں جناب طارق فیضی کا نام بھی نمایاں ہیں جو ایک عرصے سے اردو زبان کو اس کی شناخت دلانے اور شعرو ادب کی آبیاری کے لئے اپنا دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ان کی خداداد صلاحیتوں اور ان کے کام کو دیکھتے ہوئے سفیر ادب کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کان پور یوپی انڈیا سے تعلق رکھنے والے طارق فیضی نے بیس پچیس سال بھارت میں میڈیا کے ذریعے اردو زبان وادب کی ترویج و ترقی کے لئے بھرپور کام کیا پاکستان کے شاعروں ادیبوں کے لئے بھارت آ نے کے راستے ہموار کرنے کے لئے بھارتی حکومت پر زور ڈالتے ریے کیونکہ ان کا نظریہ ہے کہ لکھاریوں اور فکری سوچ رکھنے والے تخلیق کاروں اور فنکاروں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی طارق فیضی صاحب اب گزشتہ بارہ سال سے دوبئی میں شعر وادب کی خدمت کے لیے سرگرداں ہیں گویا اس شعر کی صورت کام کرتے ہیں کہ۔ جہاں میں اھل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔ طارق فیضی اردو ادب اور اردو زبان کی شناخت میں لگے ہوئے ہیں جو کام ہمارے سرکاری اداروں کے کرنے کا ہے وہ تن تنہا کر رہے ہیں گویا خود اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں اردو زبان کو فو قیت دیتے ہوئے وہ خالص اردو زبان کے مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں اور ان میں خالص اور جنیوئین شاعروں کو مدعو کرتے ہیں جو شہرت سے دور بھاگتے ہیں اور گمنامی اور گوشہ نشینی میں بیٹھ کر شعرو ادب تخلیق کر ریے ہیں نمائندہ اہم اور معیاری ادبی رسائل میں شائع ہونے والے ایسے اھل قلم کو ڈھونڈ لاتے ہیں اس شور شرابے آ پا دھاپی اور ایک دوسرے سے آ گے بڑھنے کے دور میں ادب کی شناخت اور اس کے فروغ کے لئے کام کرنا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے طارق فیضی ایک زندہ ولی ہے جو گوشہ گمنامی میں رینے والے گدڑی کے لعلوں اور مٹی میں لتھڑے گوہر و جواہر اور ہیروں کو نمایاں کر ریا ہے ان کی تراش خراش ایک ماہر جوہری کی طرح کر رہا یے پاکستان اور دوسرے ممالک سے خالص شاعروں کو بلانے کے ساتھ ساتھ نئی آوازوں کو بھی متعارف کرانے کا سہرا طارق فیضی کے سر ہے ان میں لیاقت علی عاصم خورشید رضوی مقصود وفا ذوالفقار عادل کاشف حسین حمیدہ شاہین وحید احمد اور عزیر یوسف کو مشاعروں میں بلایا گیا ہے اب دوبئی میں یکم سے تین دسمبر کو ہونے والے ادبی فیسٹیول میں پاکستان کے نمائندہ شاعر سید قمر رضا شہزاد اور علی اکبر ناطق اور کئی نئے شعرا کو بھی مدعو کیا گیا ہے ہر پروگرام میں میرٹ پر دعوت دینے کی روایت کو قائم رکھا گیا ہے اور اس مقولے پر عمل کیا جاتا ہے کہ کام کے لئے کام کیا جائے نا کہ نام کے لئے حیرت اور خوشی کی بات ہے کہ طارق فیضی اور ان کی ٹیم ایک عرصے سے ادبی گروہ بندی اور پسند ناپسند کی لسٹ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے ورنہ ہمارے کے ادبی میلے ٹھیلوں میں اپنے مفادات پر سب کے مفاد قربان کئے جاتے ہیں مخصوص لوگوں کی خوشنودی اور آ شیر باد کے لئے مخصوص ٹولے کو ہی نوازا جاتا ہے طارق فیضی کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کی نوکری نہیں کی بلکہ ہمیشہ کنٹریکٹ پر کام کیا ہے میڈیا کا وقت خرید کے اپنا وقت دے کر مثبت نتائج حاصل کئے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج لوگ ان کے پروگراموں کا انتظار کرتے ہیں ان میں شرکت کو اپنا اعزاز اور خوش قسمتی سمجھتے ہیں اب دوبئی میں ہونے والے رنگا رنگ تقریب کا بھی شعر و ادب کے دلدادہ لوگوں کو کرکٹ کے ورلڈ کپ اور موسیقی کے پروگراموں جیسا اشتیاق و انتظار ہے اب تک وہ اپنے پروگراموں میں ساحر لدھیانوی نصیر ترابی عرفان صدیقی اور دانیال طریر ایوارڈ دے چکے ہیں یہ دو ایوارڈ پاکستان اور دو ہندوستان کی شخصیات پر تھے اور ان کی تقسیم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایوارڈ شخصیات کے اھل خانہ کے ذریعے دلوائے جاتے ہیں نقش خیال کے عنوان کے تحت ایوارڈ کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے انہوں نے مختلف شعری اصناف اور فنون لطیفہ کو دام خیال نیرنگ خیال اصناف خیال اور مضراب خیال کے ذریعے اور بھی نمایاں اور امتیازی بنا دیا ہے دوبئی فیسٹیول کے بعد اب ان کی اڑان ترکی کے شہر استنبول جرمنی اٹلی اردن بوسینا ازبکستان اور قازقستان میں مشاعرے برپا کرنے کی ہے بحرین میں منعقد ہونے والے مشاعرے کی بازگشت ابھی جاری ہے کہ وہ باکو کے پر فضا اور خوبصورت مقام پر مشاعرے کا اہتمام کئے بیٹھے ہیں دوبئی فیسٹیول کے مہمان خصوصی عالمی شہرت یافتہ شاعر جناب جاوید اختر ہیں جو طارق فیضی کو پنجاب میں مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کی جانب سے نظمانہ منعقد کرانے کے کئی برسوں بعد خالص نظموں کا مشاعرہ مناظمہ کرانے پر سند پذیرائی دے چکے ہیں طارق فیضی کو ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی گوپی چند نارنگ جوگندر پال قاضی عبداستار اور ڈاکٹر قمر رئیس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے اور اب انہیں جاوید اختر جیسی نابغہ روزگار شخصیت کا ساتھ اور رہنمائی میسر ہے تو وہ شاعری کے ساتھ ساتھ فکشن کے لئے بھی بھرپور کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں فکشن اور شاعری کے لئے کام کرنے والے صوفی منش اھل قلم کی آواز بننا چاہتے ہیں انہوں نے ادبی گروہ بندیوں اور ایک ہی غزل پر کئی سالوں سے مشاعرہ میں پڑھ کر سامعین کو بور کرنے والوں کے تسلط کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے شہرت اور پسند ناپسند اور مفادات کے بنے ہوئے جال کو توڑا ہے تو خاص لکھاریوں اور شعرو ادب کے د یوانوں کو ادب کی شمع کو روشن رکھنے والے پروانے سفیر ادب اور شیفتہ ادب جناب طارق فیضی کی ان کاوشوں کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابیوں کے لئے دعاگو بھی رہنا چاہیے۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں