جیومیٹری باکس

Oct 09, 2023

کامران نسیم بٹالوی

زمانہ طالب علمی میں ہر طالب علم کو ریاضی کے مختلف حصوں میں سے جومیٹری کا حصہ بہت آسان اور دلچسپ لگتا ہے جس کو وہ خوشی خوشی دوسرے پورشن کی نسبت نہ صرف حل کر لیتا ہے بلکہ دل سے اس کی جستجو بھی کرتا ہے اس حصہ میں خطوط یعنی لائنوں کو طے شدہ فارمولوں کے مطابق کھینچنا پڑتا ہے جو دیکھنے میں تو بہت آسان لگتی ہیں مگر ہوتی نہیں اس سارے عمل میں جومیٹری بکس کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے جس کا ایک ایک آلہ طالب علم کو خطوط کے علمی کھیل میں معاونت کرتا ہے جیومیٹری میں ویسے تو ہر زاویہ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر اس میں متوازی خط کا کوئی ثانی نہیں۔
اب جب کہ ہم عملی زندگی میں سے گزر رہے ہیں تو ملک پاکستان کے حالات و واقعات دیکھ کر جیومیٹری میں متوازی خط کے بتائے جانے والی اہمیت کا اندازہ شدت سے ہو رہا ہے۔ جہاں یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ کون سی لائن جب دوسری لائن کو کراس کرتی ہے تو کیسے آپ کی محنت بیکار ہو جاتی ہے اور مسئلے کا حل ہونے کی بجائے غلط ہو کر الجھ جاتا ہے، بالکل اسی طرح پاکستان میں جب جب جس جس نے اپنی لائن عبور کی اور اپنے خط سے تجاوز کرتے ہوئے آگے بڑھے تب تب ریاست اور اس کی رعایا کو ناکو ں چنے چبانے پڑے پاکستان کی تاریخ میں اداروں کی متوازی حدود و قیود کی خلاف ورزی کی بدولت 76 سال گزر جانے کے باوجود معاشی انتظامی اور سیاسی بدحالی کا شکار رہنے کی وجہ سے ہم نہ صرف اقوام عالم میں پست قد ہو چکے ہیں بلکہ مسلسل پستی کے گھپ اندھیروں میں سفر بے منزل کی طرح بھٹک رہے ہیں اور ان برسوں میں طاقت کے کھیل میں کئی امر اور جمہوری حکومتیں آئیں اور گئیں کس نے کس حکومت پر شب خون مارا یہ سب نوشتہ دیوار ہے لیکن 2014ءسے 2021ءتک ہونے اور جاری رہنے والی پولیٹیکل انجینئرنگ نے ملک کی وہ ایسی کی تیسی پھیری کے خدا کی پناہ اور جس کا خمیازہ ہمیشہ کی طرح عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہو شربا مہنگائی شتر بے مہار کی طرح بے قابو ہو کر عوام کو پٹخ پٹخ کر پھینٹا لگا رہی ہے اور مال بنانے والے اور اقربا کی اگلی 70 پشتوں کو نواز کر ملک کا بیڑا غرق کر کے دفع دفعین ہو چکے ہیں مگر جن کے احتساب کی صدائے بازگشت شہر موجود تو ہے۔
لیکن یاران وطن اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کی بنا پر ہرگز پرامید نہیں ہیں کہ ریاست کے سفینہ پر اقتدار کے ذریعہ حملہ اور ہونے اور لوٹ مار کرنے والے یہ قزاق کبھی اپنے نقطہ انجام کو پہنچ پائیں گے کیونکہ ادارے عوام اور ریاست پر سپرمیسی کی بٹھائے جانے والی دھاک کے خمار سے نکلنے کے لیے تیار نہیں اور یہی وہ پناہ ہے جس کی آڑ لے کر یہ قزاق گدوں کی طرح قومی خزانہ اور املاک کو نوچتے رہے ہیں۔ لیکن اب کافی عرصہ بعد عزیزان وطن کو امید کی کرن نظر آرہی ہے جہاں دو بڑے ادارے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ متوازی خطوط اور حدود کو سختی سے اپنا پیرا میٹر طے کرنے پر پرعزم ہو چکے ہیں۔ ویسے ماضی بھی ایسے بہت سے حکمران اور عدلیہ و اسٹیبلشمنٹ کے سربراہان آئے جن کا دعویٰ تھا کہ ان سے بڑھ کر محب وطن اور نجات دہندہ یا انقلابی کوئی نہیں لیکن اس کے برعکس انھوں نے اپنی ذاتی پالیسیوں اور پسند ناپسند کو قومی مفادات پر مقدم رکھا اور نتیجتاً ان نا اہل ذمہ داران کی ذہنی غلاظت اور کثافت کی بدولت پاکستانیوں کے حصہ میں ہمیشہ کی طرح اذیت اور تکالیف دان میں ملیں۔
ملکی تاریخ میں شاز و ناظر ہی جمہور، عدل اور دفاع ملکی مفادات کی خاطر ایک پیج پر نظر آئے ہوں۔ اگر ایک ادارہ صحیح کام کر رہا ہے تو دوسرا رخنہ اندازی کر رہا ہے اور اسی کھیل نے اب تک پاکستانی قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ البتہ 76 سالہ تاریخ میں تحریک انصاف پروجیکٹ کی لانچنگ سے تکمیل تک جمہور عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کہ ایک پیج کا کوئی ثانی نہ تھا نہ ہے نہ ہوگا لیکن پھر بھی صد افسوس یہ پروجیکٹ بری طرح ناکام ہوا اور انھیں لانے والوں کے سوائے پچھتاوے کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اس ایک پیج کا قوم کو کوئی فائدہ تو نہ ہو سکا البتہ نقصان ناقابل تلافی ہوا۔ نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی قوم کو یقین سا ہونے لگا ہے کہ تینوں شعبوں کے متوازی خطوط مل کر ایک ایسی مثلث یا تکون بنا رہے ہیں جو سختی سے رول آف لا یعنی آئین پاکستان کی سچی اور حقیقی کسٹوڈین بننا چاہتی ہے یا بننے جا رہی ہے۔
جس کی بنا پر ہی قوم و ملت حقیقی ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے میاں نواز شریف کی واپسی قاضی فائزعیسیٰ کی بطور چیف جسٹس کارکردگی اور جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف اداروں کے حدود و قیود میں رہ کر کام کرنے اور اپنی صفوں میں موجود بدعنوان ملازمین کا احتساب کرنے کا اعادہ اور عملی ایکشن نوید صبح سے کم نہیں۔ جہاں ماضی میں متذکرہ اداروں کے سربراہان آئین کے تابع رہتے ہوئے ریاست کو طاقتور بنانے کی بجائے اپنی ذات اور ادارے کو طاقتور بنانے میں لگے رہتے تھے۔ اب جبکہ مذکورہ اداروں کے سربراہان ریاست پاکستان اور اس کے آئین کی بالادستی کے لیے مصمم ارادہ لے کر اقدامات کررہے ہیں تو پاکستان میں موجود ناخلف لوگ اپنے ناکام لیڈر کو پھر سے اقتدار میں واپس لا نے کے لیے ان مثبت اقدامات کے منافی چلتے ہوے خواہشمند ہیں کہ اداروں میں قومی پالیسی کی بجاے ذاتی پالیسی اور مداخلت کا دھندہ جارہی رہے جس نے سسٹم کو تباہ کیا۔لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہونے کا کیونکہ یہ تکون ایک ایسی شیلڈ بن کر ابھری ہے جس سے دشمنان وطن کی سب چالبازیاں اور منافقین ٹکرا کر زائل ہو جائیں گی اور حاکمیت عوام کی ہو گی اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب تک جیومیٹری کے متوازی خط کی طرح پاکستان کے سارے ادارے اپنے اپنے مقرر کردہ خطوط تک محدود رہیں۔

مزیدخبریں