عثمان ڈار گھاٹے کا سودا آخر کیوں کرےں؟

Oct 09, 2023

فاروق عالم انصاری

مولانا مودودی کے ہاں نماز عصر کے بعد ایک بیٹھک جمتی۔ شرکت کے لئے کوئی خاص پابندی نہ تھی۔ ایک درویش کا ڈیرہ تھاکہ کوئی آئے کہ وہ دل بہت کشادہ رکھتے تھے۔ علمی مسائل ، شگفتہ مزاجی، دوستانہ گپ شپ اور روز مرہ زندگی کے عام مسائل سبھی کچھ ہوتا۔ ایک روز مولانا فرمانے لگے۔ مجھے گھر میں بچوں کو ٹیویشن پڑھانے کے لئے ایک شریف آدمی چاہےے۔ سامنے ہی بیٹھے ایک بھلے مانس نے یہ کہتے ہوئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ حضور وہ شریف آدمی مجھے ہی سمجھ لیں۔ مولانا نے ایک نظر اسے دیکھا اور خوش دلی سے بولے۔ اجی حضرت !آپ کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب کچھ ادھر کی بھی سنئے۔ قوم کے 1970ءسے سیاست کے میدان میں دھکے کھاتے کھجل خراب ہوتے ابھی تین مطالبات ہی پورے نہ ہوئے تھے کہ شاعر ظفر اقبال چوتھے مطالبے کی خبر لے آئے ہیں۔ اب صرف روٹی کپڑے مکان تک ہی معاملہ نہیں رہا اب قوم جان کی امان بھی چاہتی ہے۔ 
روٹی کپڑا دے۔ مکان بھی دے 
اور مجھے جان کی امان بھی دے 
PTIکے عثمان ڈار کو جان کی امان تو مل گئی لیکن بہت مہنگے بھاﺅ میسر آئی ہے۔ پرانے زمانے کی ایک روایتی حویلی عثمان ڈار کا چہرے پر مسکراہٹ لئے بھاگتے ہوئے منظر نامے میں ظاہر ہونا ایک فلمی شوٹنگ سی لگتی ہے۔ سچ میں بڑی طاقت ہے اور حسن بھی۔ پھر جھوٹ کی بھی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ وہ سچ سمجھا جائے۔ اداکاری کی شان یہی ہے کہ وہ اداکاری کی بجائے حقیقت دکھائی دے۔ 
عمران خان کے ساتھ عثمان ڈار فیملی کی لمبی رفاقت تھی۔10برس زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ قریب 10برس پہلے سال2012-13ءمیں معروف کالم نگار توفیق بٹ کے ہاں جی او آر۔ون میں ان ڈار برادران کی عمران خان اور انکی جماعت سے ایجاب و قبول ہوئی۔ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ اس زمانے میں ہمارا لاہور آنا جانا بہت رہتا تھا۔ توفیق بٹ کو محفل سجانے کا ڈھنگ خوب آتا ہے۔ لاہور کے سبھی اہل قلم وہاں رونق افروز تھے۔ آج کل توفیق بٹ کی عمران خان سے بنتی نہیں۔ ان دنوں بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف میں شمولیت سے یہ ڈار برادران ان سے شیر و شکر ہو گئے۔ اب انکے ساتھ ±انکادن رات کا ساتھ تھا۔ ایک وقت آیا جب جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف چھوڑ کراپنی راہیں جدا کر لیں۔ لیکن ڈار برادران تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اب یہ عمران خان کے بہت قریب ہو گئے۔ خواجہ آصف کے خلاف سیالکوٹ میں انہوں نے سال2013ءکا الیکشن لڑا اور سال2018ءکا بھی۔ دونوں مرتبہ کامیاب نہ ہو سکے۔ انکا کہنا ہے کہ وہ سال 2018ءکے الیکشن میں جیت ضرور گئے تھے مگر خواجہ آصف کی” قبولیت “ انکے کام آ گئی۔ پاکستان سیاست کا عمیق مشاہدہ کرنے والا جانتے ہیں کہ یہاں قبولیت ، مقبولیت کے مقابلے میں ہمیشہ اہم تررہی ہے۔ سو ان ڈار برادران کو کوئی ممبری وزارت تو نہ مل سکی مگر وہ ایک عرصہ تک وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی ضرور رہے۔ اس معاونت میں بھی وزارت کے سے مزے ، ٹور ٹپے اور اختیارات سبھی کچھ موجود تھا۔ 
9مئی سے ہی غائب عثمان ڈار کا اب کہنا ہے کہ 9مئی کے تمام واقعات کی منصوبہ بندی خود عمران خان نے کی۔ انہی کا حکم تھا کہ میری گرفتاری کی صورت میں فلاں اور فلاں فوجی عمارتوں کا آپ نے کچھ نہیں چھوڑنا۔ عمران خان نے حملہ آور جتھوں کو یہ راز بھی بتا دیا کہ آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے۔ تمہاری اندر سے مدد ہو گئی۔ اب اندر کی مدد سے کیا مراد ہے ؟ تعویز دھاگہ، ٹونا ، کالا جادو یقینا نہیں یہ سوچ کر ہی کالم نگار کو کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ عثمان ڈار کی جان بخشی ہو گئی۔ جان بچی تو لاکھوں پائے۔ اس مضمون کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ احمد فراز کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ 
ندامتیں ہوں تو سر بار دوش ہوتا ہے
فراز جان کے عوض آبرو بچا لے گا 
یہ پیغام عثمان ڈار کے لئے یقینا نہیں۔ یہ گھر پھونک تماشہ دیکھنے والے سیاسی کارکنوں کا قصہ کہانی ہے۔ اب امیر کبیر گھرانوں کی ماﺅں نے حسن ناصر شہید جیسے سورمے پیدا کرنا چھوڑ دئیے ہیں۔ پھر وہ ایک کاروباری گھرانے کے فرزند ہیں۔ ایک بزنس مین اول و آخر بزنس مین ہوتا ہے۔ اسکی ہمیشہ نفع پرنظر رہتی ہے۔ وہ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتا۔ کالم کے اگلے پیرے میں نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے فرمودات ہیں۔ان سے آپ کو بہت کچھ سمجھنے میں مدد ملے گی۔ 
پچھلے دنوں ہمارے نگران وزیر اعظم نے فرمایا ”PTIکے احتجاج کے باوجود الیکشن جائز ہوں گے“۔ غالباً انکی مراد الیکشن کے نتائج سے تھی۔ مزید فرماتے ہیں”سیاست میں فوج کا کردار برقرار رہے گا“۔ انہوں نے ایک علاج بھی تجویز فرمایا ہے۔ ”اگر سیاست میں فوج کی مداخلت روکنی ہے تو ہمیں سول اداروں کا صلاحیت بڑھانا ہو گی“۔ کیسے ؟۔ اس بارے انہوں نے خاموشی برتی ہے۔البتہ انہوں نے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا ”اگر بیلٹ پیپر پر تحریک انصاف نہ ہو تو بھی انتخابات قانون ہونگے“۔ ان حالات میں اگر بہادر جاوید ہاشمی یہ انکشاف کرتے ہیں کہ 80فیصد ووٹرعمران خان کے ے پر کیا فرق پڑتا ہے۔یہ ننگی حقیقت عثمان ڈار خوب جانتے ہیں پھر وہ یہ بھی خوب سمجھتے ہیں کہ قبولیت اور مقبولیت میں کارآمد شے کونسی ہے۔ وہ گھاٹے کا سودا آخر کیوں کریں ؟۔

مزیدخبریں