”نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز“

مہنگائی اور بے روز گاری نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں، عام آدمی کے لیے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے، لوگ گرانی کے ہاتھوں بلبلا رہے ہیں، مگر ہمارے حکمران مہنگائی و بے روز گاری کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے کی بجائے ”نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز“ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔ پٹرول اور بجلی وغیرہ کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے ان کی قیمتوں میں کمی بیشی کا اثر زندگی کی تمام اشیائے ضروریہ کی پیداواری لاگت اور نقل و حمل کے اخراجات میں کمی بیشی کی صورت میں سامنے آتا ہے یوں اگر حکومت چاہے تو ان کی قیمت میں استحکام پیدا کر کے ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام پیدا کر سکتی ہے مگر بدقسمتی سے حکومت اس ضمن میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے پر قطعی تیار نہیں، حکومتی پالیسیاں عوامی مسائل میں کمی اور شہریوں کی زندگی میں سہولت فراہم کرنے کی حکمت عملی سے کلیتاً عاری ہیں، جس کی ایک جھلک آئے روز بجلی، پٹرول اور گیس وغیرہ کی قیمتوں اور ان پر مختلف ناموں سے وصول کئے جانے والے براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کی صورت میں دکھائی دیتی رہتی ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے ماہانہ فیو¿ل چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی ایک روپے 71 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی ہے، یہ اضافہ اگست کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے جو اکتوبر کے بلوں میں وصول کیا جائے گا، اس ضمن میں نیپرا نے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے ماہرین معیشت کے ایک اندازے کے مطابق اگست کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر کئے گئے بجلی کی قیمتوں میں تازہ اضافے سے صارفین پر 31 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ ابھی چار روز قبل پیر کو حکومت نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تین روپے 28 پیسے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھائی تھی، یہ اضافی قیمت بھی اکتوبر سے مارچ تک کے بجلی کے بلوں کے ساتھ وصول کی جانا ہے اور اس سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے حکومت غریب لوگوں کی جیبوں سے 159 ارب اضافی وصول کرے گی، یہ ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کا جرمانہ کراچی سمیت ملک بھر کے صارفین پر عائد کیا گیا ہے، قبل ازیں کے الیکٹرک کے صارفین پر 27 ستمبر کو 4.78 روپے سے 7.73 روپے تک فی یونٹ قیمتوں میں اضافہ کیا جا چکا ہے، یہ پے در پے اضافے صرف بجلی کے نرخوں میں ہیں، پٹرولیم مصنوعات، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے اس پر مستزاد ہیں۔ یہ سب اضافے اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ حکومت کس قدر بے رحمی سے عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کے در پے ہے، انہیں اس امر کا بھی ذرہ بھر احساس نہیں کہ حکومتی ظالمانہ پالیسیوں کے سبب ملک میں مصائب اور مسائل سے دو چار لوگوں کی خود کشیوں کی شرح میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے، لاچار اور بے بس لوگ صرف اپنی ہی جانیں نہیں لے رہے بلکہ اپنے بچوں اور اہل خانہ کو بھی موت کی نیند سلانے پر مجبور ہیں مگر حکمرانوں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور وہ اپنے عالمی ساہو کار آقا?ں کی خوشنودی کی خاطر ظالمانہ پالیسیاں جاری رکھنے پر مصر ہیں....!
حکومت کے اپنے وفاقی ادارہ¿ شماریات کی جانب سے جاری کئے گئے تازہ اعداد و شمار میں اعتراف کیا گیا ہے کہ قیمتوں کا اشاریہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 31.44 فیصد اوپر جا چکا ہے۔
 کرنسی کی قیمت میں تیز رفتار گراوٹ، بے لگام ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری پر کوئی قدغن نہ ہونے کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح مئی میں 38 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے ملک کے معاشی نظام اور بنکاری کو سود کی لعنت سے پاک کرنے کے واضح احکام کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت نے ملک میں دنیا بھر کی بلند ترین شرح سود بائیس فیصد مقرر کر رکھی ہے اور مضحکہ خیز طور پر اس کا جواز مہنگائی پر قابو پانا بتایا جا رہا ہے حالانکہ مہنگائی خود حکومت بڑھا رہی ہے اور ملک میں افراط زر کا ہدف اکیس فیصد ہے۔ نگران حکومت کی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر مجلس شوریٰ کے ایوان بالا، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں یہ اعداد و شمار پیش کر چکی ہیں کہ گزشتہ مالی برس کے دوران ملکی آبادی کا تقریباً چالیس فیصد یعنی ساڑھے نو کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جب کہ بے روز گاری کی شرح بھی 6.3 فیصد سے بڑھ کر دس فیصد تک پہنچ گئی ہے، اس پس منظر میں حکومت کی ناقص پالیسیوں اور پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی جیسی بنیادی لازمی ضروریات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کا نتیجہ ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ہی کی صورت میں سامنے آنا لازم ہے مگر اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ حکمرانوں کو عوام کی مشکلات کا قطعی کوئی احساس نہیں، وہ اپنی عیش و عشرت میں معمولی کمی لانے پر تیار ہیں نہ اشرافیہ کو مہیا کی جانے والی مفت رہائش، مفت گاڑی، مفت ڈرائیور، مفت پٹرول، مفت بجلی، مفت گیس اور مفت درجنوں خدمت گار جیسی شاہانہ مراعات واپس لینے پر آمادہ ہیں۔ حکومت کے اس طرز عمل پر قوم سراپا احتجاج ہے، گزشتہ ماہ کے ناقابل برداشت بجلی کے بلوں پر عوام کا شدید رد عمل ملک کے ایک کونے سے دوسرے کرتے تک دیکھنے میں آیا، تاجروں اور عوام نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی اپیل پر ملکی تاریخ کی بے مثال زبردست اور ہمہ گیر ہڑتال کر کے اپنے جذبات کا بھر پور اظہار کیا۔
جماعت اسلامی نے حکمران طبقہ کو عوام کی حالت زار کا احساس دلانے کے لیے ملک کے اہم شہروں میں پر امن اور باوقار احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے ان دھرنوں کو بھی عوام میں بھر پور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ حکمرانوں نے اس پر وقتی طور پر عوام کو چند یوم کے اندر بجلی کے بلوں میں سہولت فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا.... مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا، کے مصداق حکمرانوں نے اپنے بیرونی آقاﺅں کی ہدایت پر چند ہی دنوں میں اپنے اس وعدہ کو ’رات گئی بات گئی‘ قرار دے کر قطعی فراموش کر دیا، یہی نہیں بلکہ گزشتہ صرف ایک ماہ کے دوران دو تین بار بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر جلتی پر تیل ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ نگران حکمران جان بوجھ کر عوام کو اشتعال دلا رہے ہیں اور انہیں اس طرز عمل کے نتیجے میں سطح آب کے نیچے پروان چڑھنے والی طوفانی لہروں کا قطعی احساس نہیں جو حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں کے پر تعیش شاہانہ محلات کو بہا لے جانے کی ناقابل تصور صلاحیت اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں.... ابھی وقت ہے صاحبان اقتدار و اختیار اپنا رویہ بدلیں، شہریوں کی مشکلات ، مسائل اور مصائب سے متعلق لاتعلقی اور بے حسی ترک کریں۔ عوام کے مسائل کا احساس کریں اور ان کے حل کی جانب توجہ دیں ورنہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں بپھرے ہوئے لوگوں کے غیض و غضب سے بچا نہیں سکے گی.... حکمرانو! ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا....!!! 
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن