عنبرین فاطمہ
ہماری سوسائٹی میں یہ بات عام ہے کہ جب کسی لڑکی کی شادی کی جاتی ہے تو والدین اس سے کہتے ہیں کہ ہم تمہاری شادی کررہے ہیں تو اب سسرال سے تمہارا جنازہ ہی نکلنا چاہیے۔ عموما لڑکیاں اپنے گھروں کو بسانے کے لئے بہت قربانیاں دیتی ہیں سسرال کے شوہر کے ظلم و ستم سہتی ہیں تاکہ ان کا گھر بسا رہے اور اپنے گھر والوں سے چھپاتی ہیں ہمیشہ یہی کہتی ہیں کہ سب اچھا چل رہا ہے لیکن اگر کبھی غلطی سے وہ بتا ہی بیٹھیں کہ سب اچھا نہیں چل رہا میں میںمسائل میں گھری ہوئی ہوں مار کھاتی ہوںگالیاں کھاتی ، تو زیادہ تروالدین کا ری ایکشن تو یہ ہوتا ہے کہ بیٹا گھر بسانے کےلئے بہت کچھ کرنا پڑتاہے، ماں سب سے پہلے کہتی ہے کہ میں نے بھی گھر بسانے کے لئے بہت کچھ کیا، لیکن کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑا ۔ یوں لڑکی کی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے گھر نہیں چھوڑنا ، دوسری طرف یہ کہ بہت ساری لڑکیاں صرف اسلئے مار کھاتی رہتی ہیں ظلم و ستم سہتی رہتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان کے والدین اسکا یا اسکے بچوں کو بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے ، یوں وہ دو وقت کی روٹی ور چھت کےلئے ایک جہنم زدہ ماحول میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ لیکن بہت سارے گھر ایسے بھی ہوتے ہیں جو لڑکیوں کواچھی تربیت ضرور دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی خودداری کے ساتھ جینا سکھاتے ہیں مشکل آن پڑے تو کیسے نمٹنا ہے یہ بھی بتاتے ہیں، ان کو پڑھاتے لکھاتے ہیں شعور دیتے ہیں وہ لڑکیاں سسرال کا ظلم و ستم سہنے کی بجائے کوئی بھی فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتیں، تعلیم ضروری ہے شعور ضروری ہے ، ہاتھ کا ہنر ضروری ہے یہ کیوں کہا جاتا ہےَ کبھی اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے، آج کل چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے کچھ بھی چھپا نہیں رہ سکتا،ضروری نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ہر وڈیو ٹھیک ہوتی ہے کچھ جعلی اور کچھ پراپیگنڈا وڈیوز بھی ہوتی ہیںبہرحال ہم نے چند روزقبل سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھی جس میں ایک سسر اپنی بہو کے ساتھ بری طرح سے مار پیٹ رہا ہے اور اس خاتون کے چھوٹے چھوٹے تین بچے ہیں جو اپنی ماں کا دفاع کرنے میں بے بس دکھائی دے رہے ہیں ۔دادا کو روک رہے ہیں کہ ہماری ماں کو مت ماریں، سوشل میڈیا پر اس سسر کو گرفتار کرنے کی باتیں کی گئیں ، اگلے ہی دن ایک اور وڈیو آئی جس میں وہ مار کھاتی بہو کہہ رہی تھی کہ جو وڈیو وائرل ہوئی ہے اس میں میرا سسر مجھے بلاوجہ نہیں مار رہا تھا بلکہ میں نے ان کے ساتھ بدتمیز ی کی تھی اور اس وجہ سے انہوں نے مجھے مارا لیکن میں ان کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی نہیں کرنا چاہتی۔ (لیکن ہم ویسے ہی بتاتے چلیں کہ بد تمیزی کسی قانون کے تحت جرم نہیں ہے گھر کے اندر لڑکی کو مارنا پیٹنا ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ 2016 کے تحت جرم ضرور ہے۔)یہ تو ہے ایک وڈیو کی حد تک کا معاملہ ہے۔اس بچی سے اب ایسی وڈیو بنوائی گئی یقینا اس کے شوہر سے اس سے ایسی وڈیو بنوائی ہوگی ، یہ وڈیو ہمارا مدعا نہیں ہے لیکن اس سے جڑی حقیقتیں ہمارا مدعا ضرور ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو ہی گھر بسانے کےلئے قربانیاں کیوں دینی پڑتی ہیں، کیوں اس کے ذہن میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ مار کھانی ہے لیکن گھر نہیں چھوڑنا ، کیوںا س کو خود مختار نہیں بنایا جاتا ؟ کیوں اسکی تعلیم مکمل نہیں کروائی جاتی کیوں اسکو بوجھ سمجھتے ہوئے جلد سے جلد گھر سے رخصت کر دیا جاتا ہے؟ اس ساری صورتحال کے حوالے سے ہم نے چند ایسی خواتین سے بات کی جو اپنی ندگی میں خود مختار ہیں اور خواتین کے حقوق کے لئے کام بھی کررہی ہیں۔ سماجی کارکن اور ہوم بیسڈ ورکرزکے لئے آواز اٹھانے والی خاتون بشری خالق نے کہا کہ لڑکی کا سب بڑا مسئلہ تحفظ کا ہوتا ہے اس کو تحفظ چاہیے ہوتا ہے جس کی وجہ سے غیر یقینی کی کیفیت ہوتی ہے وہ سوچتی ہے کہ اگر میں اپنے مائیکے واپس جاتی ہوں تو میرے گھر والے مجھے قبول کیسے کریں گے کیونکہ ظاہر ہے اس کے گھر میں اب بھائیوں کی شادیاں ہو چکی ہوتی ہیںاس گھر میں اسکی اب جگہ نہیں ہوتی، تو یوں وہ ظلم و ستم سہنے کو ہی ترجیح دیتی ہے۔دوسرا یہ کہ اگر ان کے پاس تعلیم اور ہنر نہ ہو تو ان کو معاشی تحفظ درکار ہوتا ہے لہذا یہ بھی ان کو کوئی بھی بڑا فیصلے کرنے کی راہ میں سب سے بڑی ورکاوٹ بن کر سامنے آتا ہے۔پھر وہ یہ بھی سوچتی ہیں کہ جو بچے ہیں ان کو باپ کے نام اسکی چھا?ں اسکی محبت کی ضرورت ہوتی ہے اگر میں الگ ہوئی تو بچوں کو اس حوالے سے جو محرومیاں آئیں گے وہ میں پوری نہیں کر سکوں گی یوں وہ ہر اینگل سے سوچتے ہوئے فیصلہ کرتی ہے کہ جس بھی حال میں ہوں بس اِدھر ہی رہنا ہے مجھے۔ جہاں تک بدتمیزی کی بات ہے تو بد تمیزی جرم نہیں ہے مار پیٹ کرنا ضرور جرم ہے اور ایسا کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا نا چاہیے۔ بعض صورتوں میں شاید لڑکی اس لئے بھی بدتمیزی کرتی ہو کہ اسکو لگتا ہو کہ یہ بدتمیزی اسکے لئے ڈھال بن جائے اور کوئی اس پر ہاتھ نہ اٹھائے، لڑکی مار کھا کھا کر نفسیاتی طور پر عجیب سی صورتحال کا شکار ہوجاتی ہے۔ اگر اسکے بچے خصوصی طور پر بچیاں یہ سب دیکھتی ہیں تو وہ بھی اس چیز کی عادی ہوجاتی ہیں ان کو یہ سب نارمل لگتا ہے لہذا ان کے شوہر بھی انکو ماریں تو ان کے لئے یہ نارمل سی چیز ہوجاتی ہے کیونکہ انہوں نے یہ سب بچپن سے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ لڑکی جب اپنی پریشانی بتائے تو کبھی بھی لڑکی کے گھر والے اسکو یہ نہ کہیں کہ تم اپنے بچوں کو سسرال چھوڑ آو¿ اور خود ہمارے پاس آجا، ایک لڑکی جو پہلے ظلم و ستم کی ماری ہوئی ہے اس سے ایسی بات کرکے آپ تو قربانی نہ مانگیں کیا وہ ہر طرف ہر جگہ قربانی ہی دیتی رہے گیَ؟ اور مامتا کی قربانی تو مانگی ہی نہیں جانی چاہیے۔ ہماری سوسائٹی کا نظام بھی پیچیدہ ہے یہاں والدین اگر کام پر جاتے ہیں تو ان کو پیچھے اپنے گھر میں بچیوں کے تحفظ کی فکر ہوتی ہے جو کہ جائز ہوتی ہے لہذا وہ یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے یہ اپنے گھر کی ہوجائیں تو بہتر ہے۔ دوسرا سوسائٹی ایک مخصوص عمر کے گزرنے سے پہلے ہی سوالات شروع کردیتی ہے ہائے شادی نہیں کی ،ہائے لڑکی عمر ہو گئی ہے بہت سارے معاملات ہیں جو والدین کو بہت سارے فیصلے عجلت میں کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ معروف صحافی مہوش اعجاز نے کہا کہ ہم بہت سارے کیسز میں دیکھتے ہیں کہ بہت ساری لڑکیاں مار کھاتی رہتی ہیں لیکن اپنے مائیکے اگر نہیں جاتیں تو ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے والدین ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ، وہ ان کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے ، ان کو پالنے کےلئے ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے ، شاید اسی لئے وہ والدین سب جانتے ہوئے کہ ان کی بچی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے سسرال میں ، کہہ دیتے ہیں کہ بھئی وہیں رہو چاہے کچھ بھی ہوجائے وہی تمہارا اب اصل گھر ہے۔ ہاں جن فیملیز میں تشدد کو برداشت نہیں کیا جاتا بہن بیٹیوں کو عزت کے ساتھ احترام کے ساتھ رکھا جاتا ہے ، ان کی بیٹیوں پر ایسی کوئی قیامت ٹوٹے تو وہ پھر بھی اپنی بچیوں کو ایسی کسی مشکل سے کسی نہ کسی طرح نکال لیتے ہیں اب یہاں ضروری نہیں ہے کہ ایسا کرنے والے بہت امیر ہوں اس میں ایسی فیملیز بھی دیکھی گئی ہیں جن کے پاس کھانے کو صرف دو روٹی ہے لیکن وہ اپنی بچی کی جان عذاب سے چھڑوا لیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ہمارے پاس دو روٹیاں بھی اگر ہیں توہم چاہے اسکو دو نوالے کھلائیں گے لیکن اس جہنم میں دوبارہ نہیں بھیجیں گے۔
اب یہ جو لڑکیاں مار کھانے کے بعد بھی اگر سارا الزام اپنے سر لے لیتی ہیں اس کی بھی کچھ وجوہات ہوتی ہیں یا تو ان لڑکیوں نے اپنے گھروں میں اپنی ماو¿ں کو باپ سے دادا سے پیٹتے ہوئے دیکھا ہوتا ہے یا وہ خود باپ اور بھائی سے پیٹتی ہوئی بڑی ہوتی ہیں لہذا ایسی بچیوں نے گھروں میں یہ سب دیکھا ہوتا ہے ان کے لئے کوئی پھر نئی بات نہیں ہوتی اگر سسرال میں ان پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا میں ، سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سارے ایسے لوگ جن ک بات پر توجہ دی جاتی ہے وہ آگے آئیں ان میں مذہبی سکالرز اور ٹیچرز بھی شامل ہیں وہ لوگوں کو شعور دیں ان کی ذہن سازی کریں کہ خواتین کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے ان کو کتنا اور کیسے خود مختار بنانا ہے کہ وہ اپنی نسل کی تربیت اچھے سے کر سکے اور اگر اس کے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے تو وہ خود کوئی فیصلہ کر سکے۔ اور یہ تعلیم عام ہونی چاہیے کہ ہاتھ اٹھانا جرم ہے کسی کے ساتھ نہیں بن رہی تو الگ ہوجائیں ، لڑ لیں لیکن ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے کچھ بھی ہوجائے۔
سماجی کارکن ملیحہ حسین نے کہاکہ ہمیں خدا جب بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے تو ہم کیوں انکی پرورش ایک سی نہیں کرتے کیوں ان کو تعلیم کے یکساں مواقع نہیں دیتے کیوں بیٹوں کو اچھا کھلاتے ہیں اور بیٹیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں؟ کیوں ہم اپنی بیٹیوں کو صرف یہ سمجھاتے ہیں کہ تم نے ہر کسی کا خیال رکھنا ہے اور ہر کسی کی خدمت کرنی ہے ، سوال نہیں کرنا اور آوازتو اونچی کرنی ہی نہیں ہے۔ کیوں بیٹیوں کو بتا دیا جاتا کہ جتنا بھی ظلم و ستم ہوجائے آپ نے آواز نہیں نکالنی بس اپنا گھر بسانے کےلئے سب سہہ جانا ہے۔ کیوں ان کی ذہن سازی کرتے ہیں کہ ہم نے تمہاری ڈولی اٹھا دی ہے اب اگلے گھر سے تمہارا جنازہ ہی اٹھے۔ کیوں ہم اپنی بیٹیوں کو ہی قربانی کا بکرا بناتے ہیں کہ وہ اپنے جنازہ اٹھنے کا ہی کیوں انتظار کرے؟ اس سب کے پیچھے پدرشاہی نظام ہے جو مرد کو اعلی درجہ دیتا ہے اور عورت کو کمتر درجہ دیتا ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے اور بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو خود مختار بنانا چاہیے اگر وہ سسرال میں کسی مشکل میں ہوں تو ان کویہ کہہ کر مشکل میں نہیں چھوڑ دینا چاہیے کہ بس اب جو بھی ہے وہی تمہارا گھر ہے وہیں رہو چاہے مار کھاتی رہو۔ ہمیں اپنے بچوں لڑکی اور لڑکا دونوں کو یہ بات سکھانی چاہیے کہ ہاتھ اٹھانا جرم ہے یہ کسی صورت قابل معافی نہیںقانون میں اس کیلئے سزا رکھی گئی ہے۔
ظلم و ستم اور تشدد سھنے کے باوجود لڑکیاں سسرال میں رھنے پر کیوں مجبور؟
Oct 09, 2023