پاکستان ڈی سٹیبلایزڈ ہوگیا ہے

Oct 09, 2023

فہمیدہ کوثر

پاکستان ڈی سٹیبلایزڈ ہوگیا ہے
فہمیدہ کوثر 
 پاکستان کا بنیادی مسئلہ عوام کی ضروریات زندگی کی فراہمی ہے ریاست اس وقت ڈی اسٹیبلائزڈ ہوجاتی ہے جب لوگ فاقوں مرنے لکیں ہیگل جب زوال پزیر ریاستوں کا احوال لکھتا ہے تو لکھتا ہے کہ جب فرد اور ریاست کے درمیان تعلق صرف اعتماد سے بنتا ہے بظاہر آپ ترقی کا جو مرضی روڈ میپ بنائیں جب تک عوام مطمئین نہیں آپ ترقی کا سفر نہیں کرتے بلکہ تنزلی کی طرف جارہے ہوتے ہیں اسکی مثال اس نادان شخص کی طرح ہے جس کے گھر ایک چھوٹی چارپائی تھی جب بھی کوئی لمبے قد کاشخص آتا وہ اسکی ٹانگیں کاٹ کر اسکا قد پورا کردیتا اور وہ شخص چیخیں مار مار کر مرجاتا عوام بھی چیخیں مار مار کر مر رہی ہے گزشتہ ایک سال کی مہنگائی نے تو ریاست اور عوام کے درمیان نہ صرف اعتماد کے رشتے کو نہ صرف ختم کیا بلکہ عوام میں خوف بھردیا ہے خدشات بے یقینی انتشار بے یقینی میں اور بے پناہ مسائل میں گھری ریاست کس طرح استحکام کی راہیں ڈھونڈ سکتی ہے کسی زمانے میں کہاجاتا تھا کہ پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو یہ ملک مستقبل میں کینیڈا بن سکتاہے یا لاطینی امریکہ یہ زمانہ بھٹو کا زمانہ تھا جب وہ کہا کرتا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ترقی ضرور کریں چاہے وہ ایٹمی پاور ہو یا معاشی ترقی ہم عجیب قوم ہیں ہم صرف وہ بات رکھتے ہیں جو ہمارے مفاد کی ہو ترقی کو تو ہم نے پس پشت ڈال دیا اور عوام کو گھاس کھانے پر لگادیا اور اب تو ان کے پاس گھاس کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں سوال پھر وہی گھسا پٹا ہے کہ ہم پاکستان کو بنانا ریپبلک بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں جمہوریت کو پنپنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا رہا بار بار فوجی مداخلت کیوں ہوتی رہی عدالتوں کو نظریہ ضرورت کی کیوں بھینٹ چڑھایا جاتا رہا آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا ہے سیاست کے بھنور میں پھنسے اپنی اپنی کشتی کو جائز اور ناجائز طریقے سے کنارے تک پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں اس کے لئے اگر کسی دوسرے کی کشتی بھی ڈبونی پڑ جائے تو جائز ہے اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو اس میں قصور ان محسنوں کا بھی ہوگا جو اختیارات تو سبھی رکھتے تھے لیکن جواب دہ نہیں تھے مسائل کاحل جمہوریت کی بیخ کنی یی انصاف کی عدم فراہمی اور تشدد میں نہیں بلکہ ہمیں اس پرامن راستے پر چلنا ہوگا جہاں عوام کو آزادانہ سانس لینے اور بنیادی ضروریات کی ارزاں فراہمی تک رسائی ہو اگر تھوڑا سا ماضی میں جھانکا جائے تو برصغیر کے حکمرانوں کے پاس تمام اختیارات تھے لیکن وہ سیاسی استحکام پر توجہ نہ دے سکے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ معمولی سے برطانوی تاجروں سے شکست کھا گئے اس تاریخی حقیقت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جبر تشدد انصاف کافقدان جمہوری ادارے اور سسٹم کافروغ نہ پانا ایسے انتشار کی طرف دھکیلتے ہیں جس کا خمیازہ عوام تو بھگھتتے ہی ہیں ریاست کا استحکام بھی ناممکن ہوجاتا ہے ہم فکری اور اخلاقی بحران کا شکار ہیں ہمیں اسوقت وسیع النظری کی ضرورت ہے مخربی اور ہماری جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ ان کے ہاں اپوزیشن اور حزب اختلاف میں ذہنی ہم آھنگی ہوتی ہے انتخابات میں ہارنے والی پارٹی جیتنے والی کا مسکرا کر استقبال کرتی ہے جب کہ ہمارے ہاں دیوار سے لگانے کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے ہم انتہاو¿ں کی دنیا میں رہتے ہیں ہم نیکوکار ہیں جب کہ دوسرے بدی کا مجسمہ ہیں اور اس سے جو نفرت اور عداوت پھیلتی ہے وہ معاشرتی استحکام کو خس و خاشاک کی طرح بہا کرلے جاتی ہے ریاست کی ناکامی کی ایک وجہ وہ بری گورننس بھی ہوتی ہے جو عوام کو مہنگائی کے دلدل میں دھنسا دے

مزیدخبریں