عباس نامہ …عباس ملک
bureauofficeisb@gmail.com
آج کی یہ قلمی کاوش موجودہ وقت کی غمناک اور افسوس ناک صورتحال کی ایک جھلک ہے ، وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا بھی وقت آئے گا جب پاک فوج کے جانثار سپاہیوں ، شہدائے وطن کے کردار پر انگلی اٹھائی جائیگی ، سرحدوں کے محافظ ، مملکت کے امین ادارے پاک فوج پر کیچڑ اچھالا جائے گا، وہ بھی محض سیاست چمکانے اور حصول اقتدار کیلئے؟ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ ہم جب اپنی افواج پاک کے روشن پہلوو¿ں پر لکھتے ہیں مقدس قلم کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ وطن کی حرمت پر اپنے خاندان قربان کر کے دشمن سے آنکھ ملانے والی سپاہ کیخلاف زہر اگلا جا رہا ہے؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ ہم اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو سیاست دانوں کی خاطر بھول چکے ہیں؟ آج یہ لفظ اپنے دل کے لہو سے لکھ رہا ہوں، قلم زخمی ہے ، زبان زخم دہ ہے ، نکھیں یہ بیان کرتے ہوئے نمناک اور غمزدہ ہیں کہ میرے وطن کا نوجوان آج اس قدر نفرت کے بھنور میں دھنس چکا ہے کہ اسے اچھے برے ، سچ اور جھوٹ کی پہچان تک نہیں ہو رہی ہے،۔کون ہے؟ جس نے نفرتوں کا یہ بیج بویا ہے گزشتہ دنوں بھرے بازار میں ایک شخص نے شناسائی کے بعد شکوہ کناں ہو ا '' آپ کالم نگار ہیں مگر آپ اپنی تحریر کیساتھ انصاف نہیں کرتے '' میں نے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اسے وضاحت کنندہ انداز میں سوال کیا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ موصوف فرمانے لگے کہ ہمارے یہاںجو ہو رہا ہے یہ سب آپ کے یہی کر رہے ہیں جن کے قصیدے آپ ک نگارشات میں رقم کرتے ہیں وہی اس سب کے ذمہ دار ہیں تو میرا دل پھٹ گیا اور میری روح تڑپ گئی۔ میں نے اسے کہا کہ آپ کے پاس ناکافی اطلاعات اور غلط جانکاری ، مایوس کن خبریں پہنچ رہی ہیں جو مخصوص پروپیگنڈا بریگیڈ کا بنایا ہوا گمراہ کن لٹریچر ہے جبکہ حقائق اس سے بہت الگ ہیں تو وہ شخص مجھے کوستے ہو? اور حقیقت جاننے کے بجا? نفرتوں کا اظہار کرتا ہوا چلا گیا، میں سکتے میں تھا ، میرا وجود میرے ہونے کی نفی کرنے لگا ، میرے قلب میں ایک آگ کا ہولہ پیدا ہوا اور شدت غم اور افسوس کے بادل منڈلانے لگے۔ میں اپنے گھر بوجھل قدموں سے لوٹا اور کمرہ بند کر کے سکوت کا گہرا سانس لینے کی کوشش کرنے لگا ، میں سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنے آپ سے سوال کرنے لگا کہ کیا یہ نوجوان بھول گیا کہ کیسے بابائے قوم نے اس ملک کو غلامی سے نجات دلائی تھی؟ کیا میرے ملک کا نوجوان یہ بھول چکا ہے کہ کتنی لاشوں کا خراج دیکر یہ عظیم مملکت وجود میں آئی؟ کیا میرے ملک کا نوجوان یہ بھول گیا کہ 1965 کی جنگ میں میرے وطن کے انہی محافظوں نے شہادتوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اس ملک کی سرحدوں کا دفاع کیا تھا؟ کیا راہ حق کے ان شہیدوں کو بھول چکے جنہوں نے اپنے سینکڑوں ارمان مار کر ، اپنے بچوں ، ماو¿ں بہنوں بیٹیوں سے دور رہ کر اس وطن کی حرمت پر خود کو قربان کیا؟ کیا ہم گارگل کی جنگ میں شہید ہونے والے ان سینکڑوں شہیدوں کی قربانیوں کو بھول گئے جو ہمارے لیے اس ملک پر قربان ہو گئے ؟ ہم کیوں دہشتگردوں سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہو? جراتوں کے ان نشانوں کی قربانی کو بھول گئے ہیں جو ہر روز شہادتوں کی عظیم مثال قائم کر رہے ہیں جب ہم اپنے بستروں پر آرام فرما رہے ہوتے ہیں اور وہ ہمارے تحفظ کیلئے دشمن پر کاری ضرب لگاتے ہیں؟ میں بے حد غمگین ہوں کہ میرے پاکستان کے نوجوان صرف سیاسی شعبدہ بازی کے لپیٹے میں آ کر اس ملک کے محافظوں کی عظیم فوج کی قربانیوں کو فراموش کر بیٹھی ہے اور یہ نفرت اس قدر پھیل چکی ہے کہ اب نسلوں کو منتقل ہو رہی ہے۔میرا سب سے سوال ہے کہ سوچئیے گا ضرور کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے،کس کی ایما اور کہنے پر کیاجا رہا ہے،ایک دم سے حزب اختلاف سے فوج مخالف صدائیں کیوں بلند ہونا شروع ہو گئیں،کیا کسی اور کے ایجنڈے پر عمل پیرائی کے لئے ان کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ایسے کئی سوالات میرے جیسے محب وطن لوگوں کے اذہان میں بھی جنم لے رہے ہوں گے خاص کے سیاستدانوں کے فوج مخالف بیانات کے بعد۔ ابھی کل ہی ایک دوست کے ساتھ ملک کی موجودہ سیاسی ومعاشی صورت حال پر بحث چل رہی تھی کہ میرے مذکور سوالات سے اس نے براہ راست یہ فتویٰ داغ دیا کہ ملک صاحب آپ بھی فوجی آمروں کے حق میں بات کر رہے ہیں،میں نے جواب میں عرض کیا کہ جناب ایسا ہرگز نہیں میں کبھی بھی ون مین شو کے حق میں نہیں رہا لیکن مجھے ایک بات کا جواب اپنے ضمیر کو حاضر جان کر دیجئے گا کہ کیا افواج پاکستان ہمارے ملک کا ایک اہم ادارہ نہیں ہے،کیا ملک پر دشمن کے حملہ کے وقت وہ ہماری سرحدوں کی حفاظت پر چاک و چوبند نہیں ہوگی؟موصوف نے جواب میں کہا کہ وہ تو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔بالکل درست،لیکن کیا ذمہ داری کا احساس افواج کو ہی ہونا چاہئے یا ہمارے سیاستدان بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔کیا ہمارے سیاستدانوں کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تہذیب وتقدس سے ماورا ہوتے ہیں۔یا ہونا چاہئے،نہیں اگر ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور جمہوری نظام حکومت کی برتری اور ماورائی نظام حکومت قرار دیتے ہیں تو پھر انہیں بھی تو اپنے دائرہ اختیار اور دائرہ تمدن وتہذیب کا خیال رکھنا چاہئے۔نا کہ خود کو عظیم مخلوق سمجھتے ہوئے دنیاوی قانون سے مبرا قرار دیں۔اب واپس آتے ہیں کہ ایک دم سے کچھ لوگ اپنے ہی ملک کے ادارے کے کیوں اتنے خلاف ہو گئے ہیں؟ تو جناب کہتے ہیں کہ دوسروں کی پلیٹ میں سیب میٹھا اور پیارا دکھائی دیتا ہے،ایسے ہی جیسے ''گھر کا جوگی جوگنا اور باہر دا جوگی سدھ'' اسے آپ انسانی فطرت قرار نہیں دے سکتے بلکہ انسانوں کے اندر کا خوف اور احساس کمتری کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر اعتماد نہیں ہوتاجس کی بنا پر ہمیں ہر وہ چیز،شخص اور ادارے پر کشش اور فعال دکھائی دیتے ہیں جو ہماری دسترس سے باہر ہو ں،جیسے کہ آجکل پاکستان میں افواج ِ پاکستان پر تنقید کرنا ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ہمارا ایک دوست کہا کرتا ہے کہ جسے ماں چولہے کے پاس نہیں بٹھاتی وہ بھی افواج کو طعن وتشنیع سنا رہا ہوتا ہے۔حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ جو وطن کی خاطر اورعوام کی حفاظت کے لئے سرحدوں پر پہریدار بن کر راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون برباد کئے ہوئے ہیں شہریوں کو بھی ان کی آنکھوں کا نوراور ماتھے کا جھومر بننا چاہئے تاکہ جیسے ہم ان پر فخر کرتے ہیں وہ بھی ہم پر غرور کر سکیں کیونکہ افواج اور عوام جب ایک صف میں کھڑے ہو جائیں گے تو اندرونی وبیرونی دشمن کی جرات نہیں ہوگی کہ ملک کی طرف میلی نظر سے دیکھ سکے۔ انسان تو کیا حیوان بھی جس سرزمین میں پیدا ہوتا ہے اس سے والہانہ محبت اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔چرند، پرند، درند ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ انس ہوتا ہے۔اپنے گھر کے درو دیوار زمین اور ماحول سے صرف حضرت انسان ہی کو نہیں بلکہ حیوانات کو بھی الفت و محبت ہوجاتی ہے۔سورة انفال میں اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن کے ملنے پر شکر بجالانے کی ترغیب دلائی ہے۔''اور وہ وقت یاد کرو جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے تھے، ملک میں دبے ہوئے تھے یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے؟ تم اس بات سے بھی خوف زدہ رہتے تھے کہ طاقتور لوگ تمہیں اچک لیں گے یعنی سماجی طور پر تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا، پس ہجرت مدینہ کے بعد اس اللہ نے تمہیں (آزاد اور محفوظ ) ٹھکانہ (وطن ) عطا فرمایا اور(اسلامی حکومت واقتدار کی صورت میں)تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات،اموال غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے)تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطافرمادی تاکہ تم اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا شکر بجا لاسکو۔
آج ہمارے جوان اپنے وطن اپنی قوم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ آئے دن دشمنوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے یہ مجاہدین جام شہادت نوش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں انکی فضیلت یوں بیان کرتا ہے۔''کسی عذر کے بغیر گھر بیٹھے رہنے والے مسلمان ان کے برابر نہیں جو اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتے ہیں ،اللہ نے جان ومال سے جہاد کرنے والوں کا بیٹھنے والوں پر درجہ بڑھادیا ہے ،اگرچہ ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کاوعدہ کیا ہے ،اور اللہ نے لڑنے والوں کو بیٹھنے والوں سے اجر عظیم میں زیادہ کیا ہے''(سورة النسائ)اب اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ''قسم ہے (ان گھوڑوں )کی جو پیٹ اور سینے سے آواز نکالتے ہوئے دوڑنے والے ہیں، پھر جو سم مارکر چنگاریاں نکالنے والے ہیں پھر صبح کے وقت حملہ کرنے والے ہیں پھر اس کے ساتھ غبار اڑاتے ہیں۔مجاہدین کے گھوڑے جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے ہانپتے اور ہنہناتے ہوئے دوڑتے ہیں، ان کی اللہ تبارک وتعالیٰ قسم کھاتا ہے (سورة العادیات)بے شک اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جاگنا ،نقل وحرکت کرنا اور تربیت حاصل کرنا ایسے افعال عبادات میں شمار ہوتے ہیں۔قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث کے پیش نظر اپنے وطن اور اپنے وطن کے نگہبانوں سے محبت کرنا حکم الٰہی بھی ہے۔ملک وقوم پر جب بھی کبھی کوئی کڑا وقت یا مشکل آن پڑی ہے یا پھر قدرتی آفات سیلاب،طوفان،زلزلہ یا پھر کسی وبا نے آگھیرا ہے تو سب سے پہلے جس ادارے نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیراپنی خدمات پیش کی ہیں وہ ''افواج پاک'' ہیں۔کرونا وبا کے دوران جب ہر طرف موت رقص کرتے دکھائی دیتی تھی اور لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتے تھے اس وقت ''افواج پاک ''خدمت انسانیت میں پہلے نمبر پر تھیں۔ اس پر قوم کے کروڑوں محب وطن افراد کا پاک فوج کے حق میں نہایت مثبت وجاندار انداز وطریق اور شاندار الفاظ میں خراج تحسین وتشفی کا باعث بھی بنا۔
دنیا میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کسی حکمران نے فوج کے بغیر اپنی حاکمیت قائم رکھی ہو یاکوئی حاکم اپنی رعایا کا تحفظ کرسکا ہو۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کا ہروہ حاکم نہ اپنی سلطنت کاتحفظ کرسکا اور نہ ہی اپنی قوم یا رعایا کا جس نے فوج رکھنے کے باوجود اپنی سپاہ کی ترقی اور برتری پر توجہ نہ دی۔ علاوہ ازیں ایسی متعدد سلطنیتں بھی تباہی وبربادی کا شکار ہوگئیں جن کے حکمرانوں نے فوج کو جاںنثاروں وجانبازوں کادرجہ دینے کے بجائے اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی نہ صرف کوشش کہ بلکہ قوم کو بھی فوج کے خلاف باغیانہ رویہ اختیار کرنے پر اکسایا۔مجاہدوں،غازیوں،شہیدوں سے اللہ تعالیٰ خود بھی محبت فرماتا ہے اور ان سے محبت کرنا عین سنت ہے اور سنت نبوی? سے محبت اور اسکی پیروی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ خود محبت فرماتا ہے۔(سورةالصف)جو لوگ اللہ کی راہ میں ایسے طور پر صف باندھ کر لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی دیوارہیں وہ بے شک اللہ کے محبوب ہیں۔''پھر اللہ رب العزت (سورة النسائ)ارشاد فرماتا ہے ''اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرے پھر شہید ہو جائے یاغلبہ پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے''(سورة التوبہ 20,21,22)پاک پرودگار ارشاد فرماتا ہے ''جو لوگ ایمان لائے اور گھر چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں سے لڑے، اللہ کے ہاں ان کے لیے بڑا درجہ ہے،اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔انہیں ان کا رب اپنی طرف مہربانی اور رضامندی اور باغوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں انہیں ہمیشہ آرام ہوگا۔ان میں ہمیشہ رہیں گے ،بے شک اللہ کے ہاں بڑا ثواب ہے''۔
ایک بات تو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اللہ کے بعد اگرملکی سرحدوں کا کوئی محافظ ونگہبان ہے تو وہ ہماری مایہ ناز پاک فوج ہے جس کی موجودگی میں ہم اور ہماری اولادیں وجائیدادیں محفوظ ہیں۔موسم کے مطابق گرم سرد آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر انواع واقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے والوںکے لیے ''افواج پاک ''کے کردار پر انگلیاں اٹھانا تو بہت آسان ہیں مگر جسم کو جھلسا دینے والی گرمی، تپتے صحراﺅں میں خصوصی لباس (وردی)اور سخت جوتے پہنے اور جسم کے اندر خون کو منجمدکردینے والی اور اعضائے انسانی کو ناکارہ بنادینے والی گلیشئرکی منفی 50,60ڈگری سردی جہاں 30فیصد آکسیجن رہ جاتی ہے اور برفانی اور طوفانی ہواﺅں کے جھکڑ 200کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہوں،وہاں پر یہ شیران اسلام ملک وقوم کی حفاظت کرتے ہیں۔ایڈولف ہٹلر کا کرتا تھا ہے کہ کسی قوم کو کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنا دوکہ وہ اپنے محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ آج ایک گھناﺅنی سازش کے تحت پاکستان دشمن عناصر افواجِ پاکستان اور دیگر اداروں کو ہدفِ تنقید بنا کر نفرت پھیلارہے ہیں ا?نہیں معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کے اس ادارے اور کروڑوں عوام باہمی یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک دشمن عناصر کا حربہ نا کام بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آخر میں مایوس نوجوانوں سے گزارش ہے کہ یہ ملک بھی ہمارا ہے یہ فوج بھی ہماری ہے ، ہمیں اپنی فوج کی عزت کرنی چاہئے کیونکہ آپکا دشمن تو اسی تاک میں بیٹھا ہے کہ عوام اور فوج کو آپس میں لڑوا کر وہ اپنے ناپاک مذموم مقاصد حاصل کر سکے۔ پاک فوج زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد