پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
مسلمانو تم ڈیزی کٹر بموں اور میزائلوں کی آگ میں زندہ جلا ئے جا تے رہو گے اور تماشائی مسلمان فلسطین اور کشمیر کے شہداءکیلئے محض بیان دیتے اور احتجاج کرتے ر ہیں گے ،مسلمانو تم نے اپنا یہ مقدر خود سے چنا ہے کیونکہ نہ تمہاری حکومتوں ، نہ سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں اور نہ ہی والدین نے اپنے بچوں کیلئے کوئی عظیم اہداف مقرر کئے ‘آج مسلم نوجوان ہر وقت نقل کرنے کیلئے تیار ہے لیکن کچھ ایجاد کرنے کیلئے کسی قسم کی جدجہد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، ،مسلم نوجوان حقیقی ٹیکنالوجی کے حصول کی جانب بڑھتے ہی نہیں ہیں، ساری دنیا سافٹ وئیر پر منتقل ہو چکی ہے لیکن مسلم نوجوان نوجوان ویڈیو گیم کھیلنے میں مصروف ہے، یورپ اور بھارت کا نوجوان ڈیٹا مینجمنٹ میں غلبہ حاصل کررہا ہے جبکہ مسلم نوجوان کوڈنگ ٹیکنالوجی میں اس لئے مہارت حاصل نہیں کرتا کہ اسکی زبان سیکھنا مشکل اور پیچیدہ کام ہے، پاکستانی نوجوان انڈسٹری کی جانب تو بالکل بھی نہیں جانا چاہتا ہے کہ اس میں ہاتھ کالے کرنا پڑتے ہیں ،شوگر انڈسٹری ہو یا ٹیکسٹائل انڈسٹری یا پھر کوئی اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری لگانے کیلئے چینی ، ہندو یا پھر انگریز ماہرین کی ٹیمیں ہی پاکستان آتی ہیں ، بدقسمتی سے ہمارے نوجوان اس ہنر کو اپنانا ہی نہیں چاہتے ہیں، وہ ہمیشہ سسک سسک کر ہی اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور گزار رہے ہیں، میں نے آج تک ایک بھی کمرشل ویڈیو گیم یا بچوں کے کمرشل کارٹون نہیں دیکھےجو پاکستانی نوجوان کی تخلیق ہو، یہ تو ریسرچ پیپر تک نقل کرکے چھپواتے ہیں،2024 کا پاکستانی نوجوان ٹک ٹاک ، فیس بک و دیگر سوشل میڈیا ایپس کی چمک دمک میں گم ہوچکا ہے، پاکستانی نوجوان سے بات کریں تو وہ سارا الزام اس امر پر لگا دیتا ہےکہ تعلیمی ادارے کچھ نہیں پڑھاتے،حالانکہ دنیا بھر کے تعلیمی ادارے یونیورسٹی سطح پر سٹوڈنٹس کو پریکٹیکل تعلیم کا خاکہ اور پروٹو پراجیکٹس بنانا ہی سکھاتے ہیں ، حقیقی مہارت نوجوانوں نے انڈسٹری میں انٹرن شپ مکمل کرکے ہی حاصل کرنا ہوتی ہے، کیمیکل انجینئر ہوں یا الیکڑیکل انجینئر یا پھر پٹرولیم انجینئر کوئی پاکستانی نوجوان اپنے شہر اور گھر دور فیکٹری میں انٹرن شپ کی سختیوں کو برداشت کرنے اور کوئی پائیدار ہنر سیکھنے کو تیار نہیں ، پاکستانی نوجوان صرف یہ چاہتا ہے کہ ڈگری لیتے ہیں ائیرکنڈیشنڈ ماحول میں وائیٹ کالر جاب ملے اور بھاری بھرکم تنخواہ جیب میں آتی رہے،افسوسناک حقائق تو یہ ہیں کہ ہارڈ وئیر انڈسٹری سے لیکر سافٹ وئیر انڈسٹری تک کافرنوجوان ہی اگلی قطاروں میں پائے جاتےہیں اور تو اور ہندو نوجوان تصنیف سے لیکر گوگل تک ہر قسم کی انڈسٹری میں سربراہ کے عہدوں پر براجمان ہیں جبکہ مسلمان نوجوان گوروں کے دیس میں بیرا گیری اور سیکورٹی اہلکار بن اپنی طرف سے بڑے تیر ماررہے ہیں، پاکستانی نوجوان بیرون ملک کوئی بھی نوکری پانے کیلئے منتیں ترلے کرتے پائے جاتے ہیں ،میں نے کئی ڈاکٹر اور انجینئر یورپ ، امریکہ اور برطانیہ میں معمولی نوکریاں کرتے دیکھے ہیں جس میں میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ مسلمان نوجوانوں کا مستقبل کیونکر سدھرے گا،غیر مسلموں نے سوشل میڈیا ایپس اپنے کاروبار کیلئے بنائیں اور ہمارے نوجوان انکے شکار بن گئے،اللہ تعالیٰ نے تو بیک وقت اختیار اور اجازت نامی سہولتیں انسان کو عطا کی تھیں کہ وہ آسمان چھو لے،انسان کو اختیاردیا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی کام کرسکتا ہے لیکن اسے اجازت صرف نیکی کے کام کرنیکی دی ہے ، اسے بدی کے کام کرنیکی ہرگز اجازت نہیں ہے ، ہمارے نوجوانوں نے اختیار اور اجازت دونوں کا استعمال نہایت ہی برے طریقے سے کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے عمل کرنیکا حکم دیا لیکن آج کا پاکستانی نوجوان سہل پسند جبکہ کافر عملیت پسند ی کا مرقع ہے، گورے اور ہندو نوجوان ٹیکنالوجی اور انڈسٹری کی دنیا میں دھڑا دھڑ انقلابی ایجادات کررہے ہیں جبکہ ہمارے مڈل کلاس نوجوان نیت اور اعمال دونوں سے محروم ہیں، پاکستانی نوجوان معمولی نوکریوں پر لگ کر ہی مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہمارے لئے یہی ٹھیک ہے، اوپر سے ہمارے کٹر مذہبی یا غیر مذہبی تمام صنعتکاروں، تاجروں اور سرمایہ کار وں کو بھاری منافع کمانے کیلئے مڈل کلاس نوجوان چاہیئے ہوتے ہیں جن کے دماغوں میں ماسوائے نوکری بچانے کے آگے بڑھنے کی کوئی لگن نہ ہو تاکہ وہ ساری زندگی کم ترین معاوضے پر ان کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہیں ‘ آج میں تو یہی کہوں گا کہ بددعاﺅں سے اسرائیل نے تباہ ہونا ہوتا تو کب کا ہوچکا ہوتا، اگر بدعاﺅں سے ہی سارےدشمن برباد ہوجاتے تو اللہ کے حبیب کو جنگیں نہ لڑنی پڑتیں ، رب کائنات نے ایک میکینزم کے تحت جزاو سزا کا نظام اور وقت حساب مقرر کردیا ہے ، ظلم کیخلاف دفاع کے پیمانے طے کردیئے گئے ہیں،خدائے لم یزل نے ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے معاشی اور عسکری دفاع کو محفوظ کرنے کا حکم دے رکھا ہے جو اللہ کے احکامات پر چلے گا وہ کامیابی پالے گا، میرا اپنے نوجوان انجینئرز سے ایک ہی سوال ہے کہ وہ کب ماہر شکاری بن کر خود کا شکار کرنا سیکھیں گے یا پھر گوروں اور ہندوﺅں کی بنائی گئی ٹیکنالوجی کے شکار بن انکے پھندوں میں ساری زندگی پھنسے رہیں گے ؟