پی ٹی ایم پر پابندی کا فیصلہ‘ دیر آید درست آید۔
یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا تاکہ زہر زیادہ نہ پھیلتا۔ ایک ایسی جماعت جس کے ادنیٰ سے اعلیٰ تک کارکن و رہنما فخریہ خود کو افغان کہلاتے ہیں، اپنے جلسوں میں ان کا ترانہ پڑھتے ہیں، افغانستان کا پرچم لہراتے ہیں۔ لاہور‘ کراچی‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ پشاور میں جہاں بھی وہ کوئی پروگرام رکھتے ہیں اپنے ہر پروگرام میں پاکستان کیخلاف نعرے لگاتے ہیں۔ افغان عصبیت کا بیچ بوتے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج‘ حکومت اور دیگر اداروں کو چیلنج کرتے ہیں ا نہیں جارح قرار دیتے ہیں۔ بڑے فخر سے افغانی فوجی لباس پہن کر پاکستانی علاقے فتح کرنے کے خواب دکھاتے ہیں۔ نوجوانوں گمراہ کرتے ہیں‘ ایسے لوگوں کو منفی ذہنیت رکھنے والے دیگر گمراہ عناصر کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی ہے اور یہ خود کو ہیرو ثابت کرنے کیلئے الٹے سیدھے بیانات دیتے ہیں۔ زبردستی اور دھونس سے کئے اپنے جرائم پر اتراتے ہیں۔ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا اپنی بہادری گردانتے ہیں۔ پہلے بھی اس جماعت کیخلاف بہت سی شکایات تھیں‘ان پر ہلکا پھلکا ایکشن لیا گیا۔ مگر یہ باز نہیں آئے۔ اب پانی سر سے اونچا ہونے لگا ہے‘ یہ افغان دہشت گردوں کے سہولت کار اور انکی کارروائیوں میں معاونت کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پاکستانی سرحد کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر ان کو یہاں کھلی چھوٹ کیوں دی جاتی ہے۔ اس طرح دوسروں کو بھی شہ ملتی ہے۔ منظور پشتین خود کو چی گویرا بنا کر پیش کرتا ہے جبکہ وہ حقیقت میں میرجعفر اور میر صادق جیسا گھناﺅنا کردار ادا کر رہا ہے۔ خان عبدالغفار خان کے ساتھ تصویر جوڑ کر خود کو بھی ان کے پائے کا خدائی خدمت گار ظاہر کرکے انکی سیاسی وراثت پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ مگر اسکے خواب انشاءاللہ ادھورے رہ جائیں گے۔ نہ پہلے کوئی پاکستان کو نقصان پہنچا سکا نہ اب پہنچا سکے گا۔ یہ پاکستان کا کھا کر اس پر غرانے والے یونہی بے نیل و مرام رہیں گے۔ شیر کا روپ دھارنے سے گیدڑ شیرنہیں بن سکتا۔
اسلام آباد آپ کو بہت مس کرتا ہے۔ آپ بھی دعاکریں میں بھی کرتا ہوں۔ صحافی کے سوال پر نوازشریف کا مسکراتے ہوئےجواب۔
فلسطین پر آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے شرکت کی۔ اس پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اتفاق مبارکہ ہو مومنوں کے لئے۔ورنہ اس وقت تو ہماری سیاسی قیادت میں سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماءنوازشریف نے بھی شرکت کی۔ یوں وہ بہت سی نگاہوں کا مرکز بنے رہے۔ عرصہ ہوا انہوں نے سیاسی طور پر چپ سادھ رکھی ہے۔ بس کبھی کبھار پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کے ساتھ کسی اعلیٰ سطحی اجلاس میں نظر آتے ہیں یا مری چلے جاتے ہیں۔ جسے وہ اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔ حالانکہ جاتی امراءبھی کسی مری سے کم نہیں۔ وسیع سبزہ زار۔ گھنے درخت، فوارے‘ اے سی کمرے‘ ہرے بھر ے لان‘ سخت سے سخت موسم کے اثرات سے وہاں کے مکینوں کو بچائے رکھتے ہیں۔ مگر ملکہ کوہسار کا نشہ ہی الگ ہے۔ جو وہاں ایک بار جاتا ہے‘ پھر باربار جانا چاہتا ہے۔ اب کافی دنوں بعد جب اخبار والوں کو میاں صاحب کا دیدار ہوا۔ ، ملاقات کا موقع ملا تو انہوں نے جھٹ سوال داغ دیا کہ میاں جی اسلام آباد آپ کو بہت مس کرتا ہے اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ دعا کریں۔ اس جواب سے تو لگتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ زندگی کیا ہے
ہنس دیئے اور رو پڑی شبنم
اب میاں جی تو ہمیشہ یونہی پھولوں کی طرح مسکراتے ہوئے سوال اڑا دیتے ہیں جیسے مشکلات میں خندہ پیشانی سے غم۔ یہی وجہ سے کہ صحافیوں کے سوال پر
” اک ادا سے مجھ کو دیکھا اور نگاہیں پھیر لیں
جاتے جاتے خوب دادِ آشنائی دے گئے“
اب میاں جی کو چاہیئے کہ وہ کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے پریس کانفرنس کرلیا کریں۔ اس طرح عوام انکے خیالات سے مستفید ہوتے رہیں گے اور میاں جی کا دل بھی ہلکا ہوگا۔ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ بندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ‘ سنیاسی بن جائے۔
تخت کشمیر پر بیٹھنے کیلئے شیخ‘ مفتی اور گاندھی خاندان کا اتحاد۔
بھارت کی آزمودہ دو پالتو سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرس (فاروق عبداللہ) اور پی ڈی پی (محبوبہ مفتی) نے بالآخر تخت کشمیر پر قدم رکھنے کیلئے اتحاد کرلیا۔ یوں انکے مفادات اب سیاسی اختلافات کو مات دیکر ایک ہو گئے ہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جو ہر قیمت پر حکومت کرنے کیلئے تیار رہتی ہیں اور بھارتی حکمرانوں کی چاکری کرتی ہیں۔ بڑے بڑے کشمیر سے محبت کے جھوٹے دعوے سنہری مستقبل کے خواب دکھا کر یہ کشمیریوں کی آنکھوں سے آزادی کے خواب چھین کر ان کا سودا کرتے ہیں۔ اب بھی پہلے کی طرح ان کو اپنی بھارت سے وابستگی ظاہر کرنے کیلئے ایک بھارتی یعنی غیرکشمیری جماعت کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ کانگرس (راہول گاندھی) نے ان سے مل کر ان کو سہارا دینے کا اعلان کیا ہے جو دراصل بھارت سے جڑے رہنے کی علامت ہے۔ یوں کشمیریوں نے کم از کم اپنی مقامی جماعتوں کو ووٹ دیکر ریاست میں بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پیش قدمی ضرور روک دی ہے جو خود اب بڑے فخر سے پورے بھارت کو ہندو ریاست قرار دیکر سیکولرازم کا نقاب اتار کر پھینک چکی ہے۔ پارٹی کے قائد نے گزشتہ روز کھل کر کہا کہ بھارت ایک مکمل ہندو ریاست ہے اور اسکے بعد مسلمانوں کیلئے بھارت میں زندگی اور مشکل بنادی جائیگی۔ ابتلاءکا ایک نیا دور شروع ہوگا تو مقبوضہ کشمیر بھی محفوظ نہیں رہے گا جس پر بی جے پی کی خاص نظر ہے کیونکہ یہ واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے جو بی جے پی والے کبھی برداشت نہیں کرینگے۔ کیونکہ یہ ہندوتوا کی ہڈی بن کر اس کو چبھ رہا ہے۔ اب لگتا ہے جلد کشمیر میں عمر عبداللہ یعنی غدار خاندان کی تیسری نسل کی پھر حکومت بنے گی جس میں محبوبہ مفتی اور راہول گاندھی اسکے دست بازو ہونگے۔
حکومت نے اسلام آبادمیں خیبر پی کے ہاﺅس سیل کر دیا۔
ابھی تک لوگ یا یوں کہہ لیں پی ٹی آئی والے اپنے سابق صدر عارف علوی کے کراچی میں واقع ڈینٹل کلینک کو سیل کرنے کے صدمے سے باہر نہیں آئے اور انکے بیٹے نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ علاقے کے وہ مریض پریشان ہیں جو اس کلینک میں آکر اپنا علاج کراتے تھے۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کا بیٹا بھی دانتوں کا ڈاکٹر بن گیا تو اس نے اپنے والد کے کئی پرانے مریضوں کو علاج کرکے انہیں ٹھیک کر دیا۔ یہ دیکھ کر اسکے والد نے کہا کہ یہ کیا کر دیا‘ انہی کی فیس بٹور بٹور کر تو میں نے تمہیں ڈاکٹر بنایا تھا۔ بہرحال یہاں ایسا نہیں ہوا ہوگا۔ ان پر بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ اب اسلام آباد میں خیبر پی کے ہاﺅس کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ بھی کیا جاتا تو کوئی حرج نہیں تھا۔ ویسے بھی وہاں سکیورٹی اہلکار‘ پولیس والے تعینات ہیں۔ وہاں کے 40 ملازمین کو فارغ کرکے کوارٹر خالی کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ شاید اس کہانی پر کہ گنڈاپور کو وہاں کے ایک اہلکار نے چھت پر چھپا دیا تھا۔ اس کہانی میں جھول یہ بھی ہے کہ پولیس تو چھاپہ مارتے ہوئے سب سے پہلے چھتوں کو کھنگالتی ہے۔ کیونکہ وہاں سے ہی ملزم فرار ہونے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ مگر حیرت ہے اسلام آباد پولیس اس اہم نکتے سے بے خبر رہی اور علی امین گنڈاپور چھت ٹاپ کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ کیا اس عمر میں وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ ایسے تن و توش کے ساتھ اور پچھلے دروازے پر جانا پولیس والوں نے مناسب نہیں سمجھا۔ گھیرے کا مطلب ہے محاصرہ‘ اب یہاں پتہ نہیں کیا تھا اور غصہ یہ نکل رہا ہے کہ بلڈنگ لاز کی خلاف ورزی پر ہاﺅس کو سیل کیا گیا ہے۔ اب عارف علوی کا کلینک ہو یا خیبر پی کے ہاﺅس‘ دونوں معاملات پر پی ٹی آئی والے چیں بجبیں ہو رہے ہیں۔ ایک اور بات جنہیں وہاں توڑ پھوڑ پر اعتراض ہے‘ وہ 9 مئی کو جناح ہاﺅس لاہور میں توڑ پھوڑ کی مذمت کیوں نہیں کرتے۔ اس کے ملزموں کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔
بدھ‘ 5 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 9 اکتوبر 2024
Oct 09, 2024