گورنر راج کیسے لگتا ہے؟

آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ فوج کی یہ تعیناتی 4 اور 5 اکتوبر کی رات ہوئی۔ فوجی دستے 17 اکتوبر تک اسلام آباد میں رہیں گے اور شنگھائی کانفرنس ختم ہونے تک سکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر فوجی گاڑیوں کی آمد و رفت اور گشت سے غیر معمولی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے۔ پی ٹی آئی کے احتجاج اور علی امین گنڈاپور کے اپنے قافلے کے ساتھ ڈی چوک تک پہنچنے کے حتمی اعلان کے بعد ڈی چوک کو بھی فوج کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اب وہاں فوجی دستے تعینات ہیں اور کسی بھی ممکنہ احتجاج کو روکنے اور ا س سے نبرد آزما ہونے کیلئے پوری طرح چوکس اور تیار ہیں جبکہ رینجرز، اسلام آباد اور پنجاب پولیس کے دستے بھی اسلام آباد اور اسکے گرد و نواح میں موجود ہیں۔ کسی بھی احتجاج کی صورت میں انھیں کارروائی اور حرکت میں آنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی نے بانی پارٹی کے حکم پر 4 اکتوبر کو ”ڈی چوک“ میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ احتجاج کو ”لیڈ“ کرنے کیلئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور بھی ایک بڑے قافلے اور سرکاری وسائل کے ساتھ صوابی سے روانہ ہوئے لیکن رکاوٹیں اتنی تھیں کہ وقت مقررہ پر ڈی چوک نہیں پہنچ سکے۔ پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے میڈیا بریفنگ کے دوران جو تصویریں اور ویڈیوز شیئر کیں اس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ علی امین کے قافلے میں کافی مسلح لوگ بھی شامل تھے۔ یہی وہ امر ہے جس نے اسلام آباد کے مقتدر حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اگر مسلح لوگوں کے ہمراہ ملک کے کیپیٹل پر دھاوے کا سوچے، حملہ آور ہونے کی پلاننگ کرے تو اس کے خلاف آئینی کارروائی تو بنتی ہے۔ اسی تناظر میں فیصلہ کیا جا رہا ہے کیوں نہ علی امین گنڈا پور کو ان کے عہدے سے فارغ کر کے صوبے میں گورنر راج لگا دیا جائے۔ اگرچہ وفاقی حکومت کے کسی وزیر یا نمائندے نے ابھی تک ”گورنر راج“ کی بات نہیں کی لیکن اسلام آباد کے طول و عرض میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اگلے چند روز یا چند گھنٹوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
گورنر راج کیا ہو تا ہے؟ آئیے، اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ملکی تاریخ میں متعدد بار ایسے واقع آئے جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے۔ خاص طور پر صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں تمام انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کو گورنر راج کہا جاتا ہے؟ آئین کے آرٹیکل 32، 33اور 34 میں گورنر راج کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔ گورنر راج نافذ ہو تو بنیادی انسانی حقوق بھی معطل کر دیے جاتے ہیں۔ تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلی کے تمام اختیارات قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تفویض کر دیے جاتے ہیں۔کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورتحال ہو تو گورنر راج نافذ کیا جا سکتا ہے مگر اٹھارویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کردیا گیا ہے جسکے بعد وفاقی حکومت کیلئے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کیلئے گورنر راج نافذ کرے۔آئین کی شق 232 کیمطابق، ملک کی سلامتی، جنگ یا کسی اندرونی یا بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور اس کا سامنا صوبائی حکومت نہ کر سکتی ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔تاہم اس کیلئے شرط یہ ہے کہ متعلقہ صوبائی اسمبلی سادہ اکثریت سے ایک قرارداد کے ذریعے اس کی منظوری دے۔ اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر دس دن کے اندر گورنر راج کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔گویا اس شق کے بعد خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانا قریباً ناممکن ہے کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے۔ ایسا کیا جاتا ہے تو یہ اقدام ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور فیصلہ وہی آئےگا جو قانون میں لکھا ہوا ہے۔ صوبے میں اگر ہنگامی صورتحال ہو تو اور صدر اگر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے صدر کے اس حکم کو توثیق کیلئے پیش کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
ماضی میں اس بات کی مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے کئی صوبوں میں گورنر راج نافذ کیا گیا۔ صوبہ سندھ میں اب تک تین ”گورنر راج“ لگ چکے ہیں۔ 25 فروری 2009ءکو جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور صدر کا عہدہ آصف علی زرداری کے پاس تھا، وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے۔ انکی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے شہباز حکومت کےخلاف پنجاب میں دو ماہ کیلئے گورنر راج نافذ کیا جسکے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین سخت کشیدگی پیدا ہو گئی اور تلخی میں اضافہ ہوتا چلا گیا تاہم مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ہونےوالے لانگ مارچ اور ججز بحالی کے بعد پنجاب میں گورنر راج ختم کر دیا گیا۔ پنجاب میں گورنر راج لگاتے وقت پیپلزپارٹی نے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعلیٰ کے عہدے سے شہباز شریف کی نااہلی کے بعد پیدا ہونیوالے بحران سے بچنے کیلئے صدر نے گورنر راج نافذ کیا۔
بلوچستان میں جنوری 2013ءمیں کوئٹہ میں ہونے والے ایک خودکش کار بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے صوبے میں گورنر راج نافذ کیا۔ایک باخبر سینئر صحافی کے مطابق پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف گورنر راج کے نفاذ کے بعد آئین میں ترمیم کی گئی اور آرٹیکل 232 کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافذ نہ ہو۔
70ءکی دہائی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے جب پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کر دی جسے ناکام بنانے کیلئے صوبے کے گورنر مصطفی کھر کو کچھ خصوصی اختیارات دیے گئے۔ بطور گورنر کھر کا دور سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ گورنر نے پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ذریعے تھانوں اور ٹریفک کا نظام چلایا۔اس دوران قتل، ڈکیتی اور چوری کی کوئی واردات نہ ہوئی۔علی امین گنڈا پور کےساتھ کیا ہو گا، جو ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔ پارٹی قائد کے کہنے پر وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اسے ایک وزیراعلیٰ کی طرف سے مستحسن قدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔خدا خدا کر کے اب کہیں جا کر ملک کی معیشت پٹری پر چڑھی ہے۔ طویل عرصے بعد تمام معاشی اشاریے صحیح سمت کی راہ دکھا رہے ہیں۔ علی امین کی جانب سے لشکر کشی کے اقدامات کو کسی طرح بھی مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک وزیراعلیٰ کو ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ غیر آئینی کام کریں۔ وفاقی حکومت علی امین کے غیر آئینی اقدامات پر کیا قدم اٹھاتی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا۔ آئین میں جو لکھا ہے اسکے مطابق خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ آسان ہوتا تو اب تک صوبہ میں گورنر راج لگ چکا ہوتا۔

ای پیپر دی نیشن