غلام حیدر وائیں کی برسی اور بدلا ہوا خواجہ سعد رفیق

سیاسی جماعتوں کے نظریاتی ورکر اثاثہ ہوتے ہیں جو لیڈر شپ کو راہ راست پر رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں جو پبلک کے صیح معنوں میں ترجمان ہوتے ہیں۔ ہمارے منتخب نمائندوں کو عوام کا ترجمان کہنا عوام کی توہین ہے کیونکہ ان میں سے 90 فیصد عوام سے تعلق رکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ سب سکائی لیپ ہوتے ہیں جو پیسے کے زور پر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے اور سفارشوں سے ورکروں کا حق مار کر سیاسی جماعتوں سے ٹکٹیں اینٹھ لیتے ہیں۔ نہ ان کی کوئی سیاسی جدوجہد ہوتی نہ ان کی عوامی خدمت ہوتی نہ ان کے نظریات ہوتے ہیں۔ یہ اعلی قسم کے چاپلوس ہوتے ہیں جو اپنی لیڈر شپ کو حقائق بتانے کی بجائے ان کی چاپلوسی میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں۔ ہماری اکثر سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر نہیں لیڈر شپ میں سچی بات سننے کا حوصلہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ پا رہا۔
غلام حیدر وائیں سچے اور کھرے سیاسی ورکر تھے۔ انھوں نے پہلی بار میرٹ کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی اور جماعت کو نظریاتی بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے بنیادی ممبر شپ کا آغاز کیا۔ پرائمری یونٹ بنائے ورکرز کو عزت دی لاہور کے صحافی تو ویسے بھی ان کے احسان مند ہیں کہ انھوں نے شملہ پہاڑی کی آئیڈیل لوکیشن پر خوبصورت پریس کلب بنا کر دیا جو آج پاکستان کے ہائیڈ پارک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ انھوں نے جناب مجید نظامی کی تجویز پر تحریک پاکستان کے کارکنوں کے لیے ایوان کارکنان پاکستان بنایا اور جوہر ٹاو¿ن میں ایوان قائداعظم کے لیے جگہ مختص کی۔ یہ ادارے آج پاکستان کی نظریاتی اساس کے رکھوالے ہیں۔ انھوں نے قیام پاکستان کے موقع پر ہجرت کرنے والوں کی یاد میں والٹن روڈ پر باب پاکستان کی تعمیر کا خواب دیکھا۔ وہ چونکہ خود ہجرت کے موقع پر والٹن کیمپ میں رہے تھے انھوں نے باب پاکستان کی تعمیر کے لیے جگہ تو مختص کر دی اور فنڈز بھی اکٹھے کیے لیکن انتہائی بدقسمتی کہ یہ منصوبہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا حالانکہ کئی ادوار میں اس کی تعمیر کی تختیاں لگتی رہیں۔ یہ منصوبہ خواجہ سعد رفیق کے حلقہ انتخاب میں آتا ہے۔
غلام حیدر وائیں صیح معنوں میں درویش انسان تھے۔ میری ان کے ساتھ قربت تھی۔ جب ان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو انھوں نے وزیراعلی کی رہائش گاہ 2 ایکمن روڈ سے اپنا معمولی سا سامان اٹھایا اور مسلم لیگ ہاو¿س میں ڈیرے ڈال لیے۔ وہ مسلم لیگ ہاو¿س کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں رہنے لگے۔ ان کے پاس ایک چارپائی اور چند کپڑوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ میں روز شام کو ان کے پاس جاتا وہ اکثر دھوتی اور بنیان میں رہتے۔ یہاں جو ایک بار کونسلر بن جائے وہ مان نہیں ہوتا وہ تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے، وزیراعلی رہے لیکن ایک پائی کا فائدہ نہ اٹھایا۔ ان کے مخالفین روزانہ ان پر نت نئے الزام لگاتے اور مسلم لیگ پر تنقید کرتے وہ مجھے کہا کرتے تھے، پتر روزانہ ایناں دا جواب میرے کولوں لے جایا کر۔ خواجہ سعد رفیق بھی ایک نظریاتی سیاسی ورکر ہیں جو کچھ عرصہ سے کھری کھری باتیں کر رہے ہیں۔ لگتا ہے وہ موجودہ سیاست سے کافی بیزار ہو چکے ہیں۔ وہ جس قسم کی باتیں کر رہے ہیں ایسی باتیں لیڈر شپ کو ہضم نہیں ہوتیں۔ پتا نہیں لیڈر شپ انھیں کیسے برداشت کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس سے زیادہ سخت باتیں لیڈر شپ کے سامنے کہہ دیتا ہوں۔ اگر وہ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں کے تمام لیڈر تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے یہاں اس کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔
انھوں نے غلام حیدر وائیں کی برسی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ یہ خواہش تو بہت اچھی ہے لیکن یہاں تو ساری سیاست ہی ان کی آشیرباد سے ہوتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ ان کی تھپکی کے بغیر اقتدار نہیں مل سکتا۔ وہ عوام کو خوش کرنے کی بجائے ان کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے درست کہا کہ ہماری سیاسی جماعتیں کیوں بلوچستان میں جاکر سیاست نہیں کرتیں؟ اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتیں بناتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ورکر چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر میراثی بنے ہوئے ہیں۔ خواجہ صاحب، یہ بیماری ورکرز میں ہی نہیں، اراکین اسمبلی اور بڑے بڑے عہدیداروں میں بھی ہے۔ انھوں نے درست کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں آئین کو ماننے والی تمام قوتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ بلوچستان میں علیحدگی کی مسلح تحریک چل رہی ہے اور پاکستان کے خلاف بیرونی سازشیں ہو رہی ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتیں بلوچستان کے مسائل پر سیاست نہیں کر رہیں۔ اگر ہم نے سازشوں سے نمٹنا ہے تو سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ یہ درست بات ہے کہ لڑائی سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہمارے سیاستدان تو ایک دوسرے کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ ڈائیلاگ کا راستہ کون نکالے گا؟ ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ، پارلیمنٹ، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ بیٹھنا پڑے گا۔ جی ہاں ملک جس نہج پر پہنچ گیا ہے ایسے میں کوئی سیاسی جماعت یا ادارہ مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ سب کو کم از کم ایجنڈا پر اتفاق کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر اب آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ اب لڑائیوں اور محاذ آرائی کا وقت نہیں لیکن ہم نہ جانے پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ پاکستان کی خیر کرے۔

ای پیپر دی نیشن