ففتھ جنریشن وار

زمینی حقائق کی روشنی میں ایک طالبعلم کی حیثیت سے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ راقم ہی کا خیال نہیں بلکہ بہت سے صاحب نظر بھی کھلم کھلا اب اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جہاں مختلف محاذوں پر دشمنان پاکستان کے خلاف جنگ جاری ہے وہاں پر ایک محاذ ایسا بھی ہے جہاں پر اسٹیبلشمنٹ کو اپنی تمام تر توانائیوں اور حکمت عملی کے باوجود ابھی تک وہ کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی جس پر کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا جا سکے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ محاذ کیا ہے؟ جی قارئین اس محاذ کی کئی دفعہ خود اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی نشاندہی کی جاتی رہی ہے اور وہ ہے ففتھ جنریشن وار۔
گہرائی میں دیکھا جائے کہ یہ ففتھ جنریشن وار کیا ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک خاصا بحث طلب مسئلہ ہے لیکن عام قاری کی جانکاری کیلئے بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے معصوم لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا عمل موجودہ دور میں ففتھ جنریشن وار ہے۔ گ±و کہ ستر کی دہائی میں ا±س وقت کے مشرقی پاکستان کے حالات کے حقائق تاریخ کی شکل میں چیخ چیخ کر اب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کس طرح مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں میں لسانیت کی بنیاد پر پنجابیوں کو آگے رکھ کر مسلح افواج کے خلاف زہر بھرا گیا اور پھر ا±نہیں ریاست کے خلاف ہتھیار ا±ٹھانے پر مجبور کیا گیا تو ان تاریخی حقائق کی روشنی میں آج کے پاکستان پر نظر ڈالیں تو اس وقت اپنے وطن کے حالات اور زمینی حقائق ایک دفعہ پھر ا±سی بات کی چ±غلی کھاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ جسطرح دشمن نے اس ففتھ جنریشن وار کے ذریعے مکتی باہنی کو تشکیل دیا تھا بالکل اسی طرح آجکل اس سے ملتے جلتے “جتھے” اب ہمیں اس ملک کی سڑکوں پر نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔
اپنے بہت سے کالموں میں یہ خاکسار ایک برٹش منصوبہ ساز “ لارڈ میکالے” کا کئی دفعہ ذکر کر چکا بلکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں نے اپنی صحافتی زندگی میں کالم لکھنے کا آغاز کیا تھا تو اپنے پہلے کالم کی شروعات میں نے اسی لارڈ میکالے کی برٹش پارلیمنٹ میں کئی گئی تقریر کے ایک اقتباس سے کی تھی جس میں اس نے اس بات کا تذکرہ کچھ اسطرح کیا تھا کہ اس نے برصغیر پاک و ہند کے چپے چپے کا دورہ کیا ہے اور اسے اس پورے خطے میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ملا جو جھوٹ بولتا ہو جو چور ہو یا بے ایمان ہو۔ اسکے مطابق انکے کردار کی یہ پختگی انکے اپنے آباو¿ اجداد کی پرانی روایات سے ج±ڑے رہنے کی بدولت ہے۔ ایسے حالات میں ہم انگریز یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ہم ہندوستان کے ان لوگوں پر حکومت کر پائینگے۔ اگر ہم ان لوگوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں انکو بدلنے کیلئے انہیں انکی روایات انکے تمدن سے دور کرنا پڑیگا انکے شعور کو بدلنے کیلئے انکے ذریعہ تعلیم کو بدلنا ہو گا انکے افکار کو بدلنے کیلئے انکی سوچ کو بدلنا ہو گا اور انھیں یہ باور کرانا ہو گا کہ ہم ان سے افضل ہیں اسطرح ہم پھر ایک ایسی طبقاتی تفریق پیدا کر دینگے جسکی بنیاد پر ہم ان پر حکومت کر سکیں گے۔ کسی اہل فکر کو کہیں کہ وہ ان تمام نکات کو صرف ایک لفظ میں قلمبند کرے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج کے دور میں وہ کہے گا کہ یہ ذہن سازی کا وہی عمل ہے جسے ہم آج کے دور میں ففتھ جنریشن وار کا نام دے رہے ہیں۔ غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو یہ پراکسی نئی نہیں بلکہ تاریخی حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ قیام پاکستان کے پہلے دن سے لیکر آج تک ایک مخصوص ایجنڈے کے حصول کیلئے مختلف نعروں کی صورت میں ہر سیاسی پارٹی اور ہر انے والی حکومت نے اسی پراکسی کے ذریعے اپنا رنگ دکھایا۔ لیکن تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے نباض لوگوں کا خیال ہے کہ 1971ءکے بعد تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے کہ اس ففتھ جنریشن وار کے ذریعے ہم نے ریاست مخالف بیانیئے کے ذریعے ریاست کی اپنی فوج کے مخالف ایسے “مسلح جتھے” کھڑے کر لیئے ہیں جن کی ہیبت ترتیبی اور ساخت “مکتی باہنی” سے مختلف نہیں جنکی پرورش میں سب سے کلیدی کردار اب اجکا سوشل میڈیا ادا کر رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں 1971ءمیں ہونے والے سانحہ کے قبل کے بیس سال کے حالات پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ سامراجی طاقتوں اور بھارت نے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے منصوبہ ساز تھے، ایک خاص منصوبے کے تحت وہاں کے تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ بھرتی کئے جنھوں نے ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے دلوں کو ایک مخصوص ذہن سازی کے ذریعے پراگندہ کیا اور ریاست کے خلاف ایسا زہر گھولا جو پھر ریاست سے بغاوت کی شکل میں سامنے آیا۔ اس سباق تجزیہ نگار جب آج کے معروضی حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو انکے سامنے یہ حقیقت آتی ہے کہ پچھلے بیس سال سے اسی پراکسی کا استعمال کرتے سب سے پہلے انھی تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کیا گیا اور ایک خاص بیانیہ کو پروموٹ کرنے کیلئے ان نوجوان ذہنوں کو بطور ٹول استعمال کیا گیا اور پھر اس بیانیئے کو ایک فیشن ایک ٹرینڈ ایک برانڈ بنا دیا گیا اور ریاست کے خلاف مخصوص جتھوں کی نہ صرف پرورش کی جا رہی ہے بلکہ اب تو انکی ہر طرح سے مالی اور مادی مدد بھی کی جا رہی ہے اور یہی ایک بات اس ملک کے اہل فکر طبقہ کو جنکی تعداد اب آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے، کھائے جا رہی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کا کم علم طبقہ تو اپنی جگہ، اس وقت صاحب علم لوگوں کا اچھا بھلا طبقہ بھی اس ڈیجیٹل دہشت گردی کے ٹول کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے اور یہ کینسر اب روزمرہ زندگی کے ہر شعبہ جات کے لوگوں میں نظر آرہا ہے جسے “لارڈ مکالے” سکول آف تھاٹ کے لوگ سیاسی بلوغت اور بیداری سے تعبیر کر رہے ہیں۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن