فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت کا ایک سال مکمل ہونے پر صہیونیت کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گزشتہ روز پاکستان میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ریلیاں نکالی گئیں اور ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس کاانعقاد کیا گیا جس میں پاکستان کی ہر قابل ذکر پارٹی نے سوائے تحریک انصاف کے، شرکت کی۔ آل پارٹیز کانفرنس کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ اور متفقہ کردہ قرارداد میں کہا گیا کہ فلسطین کی آزاد اور محفوظ ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہونا چاہیے، فلسطین کو اقوم متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔ قراردار میں مطالبہ کیا گیا کہ کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے عین مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کو حل کیا جائے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا۔ قرارداد میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ شہید کرنے ، ان پر جاری حملوں اور صحافیوں کو قتل کرنے کی بھی مذمت کی گئی۔
غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی ،فلسطینی لوگوں پر مظالم اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ غزہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اسرائیل کو بین الاقوامی اور جنگی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے اور نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایاجانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ عالمی برادری اسرائیل کو لبنان اور دیگر ممالک پر مزید مظالم ڈھانے اور خطے کو مزید عدم استحکام کا شکار کرنے سے روکے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو فلسطین بالخصوص غزہ میں جاری اس قتل عام سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے کہا ہے ہم سب کو اکٹھے ہو کر پالیسی بنانا پڑے گی ورنہ بچوں پر ظلم ہوتا دیکھتے رہیں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل ایک ناسور ہے اور اس کا فیصلہ 1917ءمیں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک جبری معاہدہ کے تحت کیا تھا ،اس وقت فلسطین کی سرزمین پر یہودی بستیاں قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین میں گزشتہ سال سے اب تک 85 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے۔یہ انسانیت کی بھی توہین ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زراداری کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا اے پی سی سے خطاب اسی طرح اہمیت کا حامل تھا جس طرح انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر میں بھی یہی صورتحال ہے اور وہاں کی وادی بھی کشمیریوں کے لہو سے سرخ ہو چکی ہے۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کا خون سستا ہے۔ آج عالمی ضمیر کو 42 ہزار شہادتوں کے بعد جاگنا چاہیے۔ آج وقت آگیا ہے کہ تمام قوتیں جمع ہو کر اس خون ریزی کو بند کروائیں۔شہباز شریف نے مزید کہا کہ آج ہی ماہرین کا ایک گروپ بنائیں گے جو مسئلہ کشمیر کو دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں جا کر پاکستان اور عالم اسلام کا پیغام پہنچائیں گے۔ ظلم کو بے نقاب کریں گے۔
یہ وزیراعظم کی طرف سے اٹھایا گیا احسن اقدام ہے۔مسلم لیگ نون کے گزشتہ دور حکومت میں بھی وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ایسے وفود دوسرے ممالک میں بھیجے گئے تھے۔مگر کچھ گروپوں کی سربراہی ایسے لوگوں کو دے دی گئی جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خود بھی کماحقہ معلومات نہیں رکھتے تھے۔ایسے لوگ بھی ان ممالک میں بھجوا دیے گئے جن کی وجہ سے اس ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری آئی تھی۔اب کے وفود میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیے جو واقعی مسئلہ کشمیر و فلسطین پر مکمل گرفت رکھتے ہوں۔
پاکستان تحریک انصاف نے مسئلہ فلسطین پر وزیراعظم کی جانب سے طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے ا س حوالے سے کہا ہے کہ ہمیں اے پی سی میں شرکت کی دعوت مل گئی تھی لیکن ہم نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا۔ موجودہ حالات میں پارٹی رہنما اور کارکن گرفتار ہیں اور ان حالات میں اے پی سی میں شرکت نہ کرنیکا فیصلہ کیا۔بیرسٹر علی گوہر کا اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا جواز ”عذر گناہ بد تر از گناہ“ کے مترادف ہے۔تحریک انصاف کی اے پی سی میں نمائندگی ہونی چاہیے تھی۔ کسی بھی لیڈر کو بھیجا جا سکتا تھا۔پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے بارے میں عمومی تصور ہے کہ یہ خود غرضی کی سیاست کرتی ہے۔ اسے ملکی مفاد سے کوئی سروکار نہیں، اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست کو وطیرا بنا رکھا ہے۔ اے پی سی ایک عظیم تر مقصد کے لیے بلائی گئی تھی جس کا مقصد اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی بھی تھا۔ تحریک انصاف نے اس کا بائیکاٹ کر کے ان تصورات کو مزید مضبوط کر دیا کہ یہ ذاتی سیاست سے بالا نہیں ہوئے جبکہ اے پی سی میں شریک نہ ہونا بادی النظر میں پی ٹی آئی کی جانب سے اسرائیل کی مذمت سے گریز سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی جارحیت جس نہج پر پہنچ چکی ہے‘ اب تمام مسلم ممالک کا اسکی جارحیت کیخلاف متحد ہونا ناگزیر ہو چکا ہے. اے پی سی کے اعلامیہ کے تحت اگر تمام مسلم دنیا اکٹھی ہو کر اسرائیلی جارحیت روکنے کیلئے دباﺅ ڈالے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسرائیل کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام روکا نہ جا سکے۔ سیاست اپنی جگہ‘ پی ٹی آئی کو اے پی سی کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اسکے ساتھ مل کر آواز اٹھانا چاہیے تھی۔ بائیکاٹ سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ پی ٹی آئی کو صرف اپنی سیاست سے غرض ہے اور اسے ملک و قوم اور مسلم امہ کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔
فلسطین پر اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ اور پی ٹی آئی کا بائیکاٹ
Oct 09, 2024