سپریم کورٹ کے منع کرنے کے باوجود سندھ حکومت کے پرائیویٹ وکلا کی خدمات لینے کا انکشاف

کراچی(این این آئی)سندھ حکومت کی جانب سے پرائیویٹ وکلا کو خدمات کی مد میں 44 ملین روپے سے زائد کی ادائیگی کا انکشاف ہوا ہے۔آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ نے پرائیویٹ وکلا کی خدمات لینے پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ قانون، پارلیمانی افیئر اور کریمنل پراسیکیوشن کے مالی سال2022-23 کے آڈٹ کے دوران اس ادائیگی کا انکشاف ہوا۔رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 2017 میں پرائیویٹ وکلا کی خدمات لینے سے منع کیا تھا، تاہم سندھ حکومت کی جانب سے پرائیویٹ وکلا کو خدمات کی مد میں 44.7 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ پراسیکیوٹر جنرل آفس کے تحت نجی وکلا کو خدمات کے عوض 36.8 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی، ادائیگی مالی سال2021-22 اور2022-23 کے دوران کی گئی۔ایڈووکیٹ جنرل آفس کے تحت مالی سال2022-23 کے دوران 7.8 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی، کنٹریکٹ پر ملازمین یا لیگل پراسیکیوٹر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے، کنٹریکٹ ملازمین کا کوئی اپائنٹمنٹ آرڈر ریکارڈ کا حصہ نہیں۔رپورٹ کے مطابق لیگل فیس کے پیمانے کے بغیر پیمنٹ کی تصدیق مشکل ہے، وکلا سے متعلق معلومات، پرفارمنس یا کیس سے متعلق معلومات بھی دستیاب نہیں، پراسیکیوٹر جنرل آفس نے بتایا ہے کہ کنٹریکٹ پر لیگل پراسیکیوٹر کی تقرری محکمہ داخلہ کی جانب سے کی گئی ہے۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 میں رینجرز اسپیشل پراسیکیوٹرز کے لیے بجٹ ٹرانسفر کی منظوری وزیرِ اعلی سندھ نے دی تھی، ایڈووکیٹ جنرل آفس نے بتایا ہے کہ نجی وکلا کی خدمات بطور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ حاصل کی گئیں۔آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اے جی آفس نے بتایا ہے کہ نجی وکلا کی خدمات انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے حاصل کی گئیں،ضلعی اکانٹس کمیٹی کو متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن