صنعتیں 500 کے وی بجلی بنا کر خود استعمال کریں تو لیوی ٹیکس نہیں لگے گا: سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیٹ نیوز)  سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ 500 کلو واٹ بجلی جنریٹر سے بنانے والی صنعتیں بجلی خود استعمال کریں تو لیوی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی۔ عدالت نے پنجاب حکومت کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں خارج کردیں ۔سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے پنجاب حکومت کی اپیلوں پر فیصلہ تحریرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ 1985 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے جنریٹر سے بجلی بنانے والوں کو بجلی ڈیوٹی ادا کرنے سے استثنیٰ دیا گیا تھا، 2001 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے جنریٹر سے 500 کلو واٹ سے زائد بجلی بنانے والوں پر ڈیوٹی عائدکی گئی تھی۔ جسٹس منیب اختر  نے فیصلے میں لکھا   پنجاب حکومت کے مطابق 2001 کے نوٹیفکیشن کے بعد 1985 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے ملنے والا استثنیٰ واپس لے لیا گیا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق 2001 کے نوٹیفکیشن کے بعد 500 کلو واٹ بجلی بنانے والوں کا شمار بطور لائسنسی کرلیا گیا تھا۔فیصلے میں قرار دیا گیا ہے  ففتھ شیڈول کے پہلے کالم میں بجلی کی سپلائی کا ذکر کیا گیا ہے، سپلائی دو الگ الگ افراد کے درمیان ہوتی ہے، پہلا سپلائی دینے والا، دوسرا سپلائی حاصل کرنے والا۔ سپلائی حاصل کرنے والے کو بجلی کا استعمال بھی عمل میں لانا ہوگا۔ کیا ملوں کا 500 کے وی سے زائد بجلی بنا کر خود استعمال کرنا قابل ٹیکس عمل ہے؟ ہمارا جواب نفی میں ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے  ملیں 500 کلو واٹ سے زائد بجلی ضرور  بنا رہی تھیں لیکن وہ بجلی خود کے استعمال کے لیے تھی، ففتھ شیڈول کے مطابق بجلی کی سپلائی تو ہوئی ہی نہیں، ڈیوٹی بھی عائد نہیں ہوسکتی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کوئی شک نہیں 2001 کی تعریف کے مطابق ملیں لائسنسی میں شمار ہوتی ہیں، تاہم ٹیکس پھر بھی لاگو نہیں ہوتا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے مسلمہ اصول ہے اگر کسی ٹیکس قانون کی دو تشریحات بنتی ہوں تو ہمیشہ وہ تشریح اپنائی جائیگی جو ٹیکس ادا کرنے والے کے حق میں ہو۔  ایک شخص 500 کلو واٹ بجلی کسی دوسرے شخص کو سپلائی کرے تب ہی ٹیکس عائد ہوگا، خود بجلی بنا کر خود ہی استعمال کرنے پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاسکتا۔ تمام فریق ملوں پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاسکتا، پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج کی جاتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن