عیشہ پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
پچھلے سال اکتوبر میں غزہ پر اسرائیل کے حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا ان حملوں کا دائرہ کار اب غزہ سے آگے بڑھتا ہوا لبنان تک جا پھیلا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ غزہ کو مکمل طور پر فلسطینیوں کاقبرستان بنانے کے بعد اسرائیل نے لبنان کی جانب قدم بڑھائیں ہیں۔ جبکہ پاکستان کا ہمسایہ ملک ایران بھی اسرائیل کے نشانے پر ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح ہے۔ جب اس جنگ کا آغاز ہوا تب عالمی تجزیہ کاروں نے یہ الارم بجا دیا تھا کہ اب یہ آگ خطے کے بقیہ ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔حال ہی میں اسی حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں ایک ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔طاقت کے توازن میں تبدیلی اور علاقائی منظر نامے کی تشکیل نو اسرائیل کا کوئی نیا حربہ نہیں ہے۔متعدد بین الاقوامی فورمز پر اسرائیلی حکام اپنے ملک اسرائیل کے نقشے پکڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام نقشوں میں کسی فلسطینی ریاست یا علاقے کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے اسرائیل کے دو نقشے پیش کیے۔ ان میں سے ایک نقشے میں ان تمام ممالک کو سبز رنگ میں دکھایا گیا جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا حصہ ہیں یا اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال رکھنے کے خواہاں ہیں۔
سبز رنگ والے ممالک میں مصر، سوڈان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور اردن شامل ہیں۔دوسرے نقشے میں نیتن یاہو نے نا صرف ایران اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک شام، عراق، یمن اور لبنان کو سیاہ رنگ میں پیش کیا بلکہ ان علاقوں کو ’مکروہ‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ چونکہ لبنان ان کے مخالف گروپ میں شامل ہے اور غزہ کو مکمل تباہ کر دینے کے بعد اب ان کا ہدف لبنان اور لبنان کے بعد وہ ممالک ہیں جو نقشے میں کالے رنگ سے دکھائے گئے ہیں۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کی تیزی سے جاری پیش قدمی کو روکنے کے لیے تمام 57 اسلامی ممالک موثر حکمت عملی اپنانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم ممالک کا واحد ایٹمی طاقت ملک پاکستان ہمیشہ سے ہی اسرائیل مخالف پالیسی کا حامی رہا ہے۔ فلسطین کے لیے اپنی دو ٹوک پالیسی کا اظہار گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی کیا۔ جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم کی آمد پر پاکستانی وفد نے اجلاس سے واک آئوٹ کر کے دنیا کو واضح پیغام پہنچایا۔ مشرق وسطی میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کے حق کی آواز بنے کیلئے حکومت پاکستان نے 7 اکتوبر کو یوم یکجہتی فلسطین منانے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے میں اہم کردار جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا رہا جنھوں نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ وزیراعظم سے ملاقات کی۔ اس دن جہاں ملک بھر میں ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد ہوا وہیں لاہور میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے بڑی تعداد میں ریلیوں کا انعقاد کیا گیا، ریلیوں میں زندہ دلان لاہور نے اہل فلسطین سے بھر پور اظہار محبت و یکجتی کیا۔
جماعت اسلامی کی جانب سے2سو سے زائد مقامات پر ضلعی قیادت نے ریلیوں کا انعقاد کیا۔ اس طر ح مال روڈ پر طلبا ء تنظیموں نے بھی پر جوش ریلی کا انعقاد کیا، ریلیوں میں بچے، جوانان اور خواتین سمیت سب اپنے فلسطینی مظلوموں سے اظہار یکجہتی کے لئے شریک ہوئے، ریلیوں میں بچوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر زنجیر بناتے ہوئے اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا۔مقررین نے خطا ب کر تے ہو ئے کہا کہ ایک سال سے جاری اسرائیلی بربریت اور ظلم اب رک جانا چاہیے، امت مسلمہ اور عالمی طاقتوں کو اسرائیلی مظالم کا نوٹس لینا چاہیے۔