عترت جعفری
7 اکتوبر کو فلسطین اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور ظلم و جبر کے خلاف ایک سال مکمل ہو گیا ساری دنیا فلسطینی عوام کی بہیمانہ نسل کشی کے خلاف آواز بلندکر رہی ہے ۔ اسرائیل کے نسل پرست وزیراعظم اوراس کی حکومت کے خلاف انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی فیصلہ سنادیا ہے ۔ مختلف ممالک اس ظلم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں مظاہرے جا ری ہیں ۔ اسی پس منظر میں پاکستان جو فلسطینی نصب العین کا زبردست حامی ہے اور سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظمیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں اسی پس منظر میں اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کی پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلال بھٹو زرداری ، وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور ملک بھر کی سیاسی و دینی قیادت سے ملاقاتوں کا سلسلہ بالآخر ملک بھر سے اسرائیلی ظلم کے خلاف ایک متفقہ آواز بن کر اقوام عالم کیلئے ایک انمٹ پیغام ثابت ہوا۔
حکومت نے فلسطینی بہنوںبھائیوں کیساتھ یکجہتی کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کیلئے ملک کی تمام جماعتوں کو ایوان صد میں مدعو کیا جہاںصدر مملکت آصف علی زرداری کی صدارت میں اس کانفرنس میں ملک کی تمام پارلیمانی پارٹیوں نے شرکت کی تا ہم پاکستان تحریک انصاف اس کانفرنس میں اپنی وجوہات کے باعث شریک نہ ہوئی۔ فلسطین میں جاری ظلم و تشدد نے ملک میں اے پی سی کی شکل میں ، سیاسی قیادت کو بہت دنوں کے بعد ایک چھت کے نیچے جمع ہونے کا موقع فراہم کیا ۔ کانفرنس کے آغاز سے پہلے صدر آصف علی زرداری اور جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کے درمیان ' ون ان ون ' ملاقات بھی ہوئی، قومی رہنماؤں کی یکے بعد دیگرے آمد ہوتی رہی جس کیساتھ ایک بڑی نشست اور صلاح مشورے کا سلسلہ جاری رہا۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کے ہمراہ ایوان صدر پہنچے ان کی صدر مملکت کے ساتھ علیک سلیک ہوئی اور کانفرنس کا باقاعدہ آغاز صدر مملکت کے خطاب سے کیا گیا۔مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف ،وزیر اعظم شہباز شریف ،جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان ،امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان،استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ علیم خان ،پی ایم ایل ق سے چودھری سالک مجید ،مسلم لیگ ضیا کے صدر اعجاز الحق بھی بنفس نفیس کانفرنس میں شریک ہوئے ،کانفرنس سے وزیر اعظم شہباز شریف ، علامہ ناصر عباس ، مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف ،سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ ،جان محمد بلوچ ، سنی تحریک کے ثرو ت حسین قادری،ٹی این ایف جے کے حسین مقدسی اورمولانا طاہر اشرفی نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ سینٹ کے چئیرمین، ،سپیکر قومی اسمبلی نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کانفرنس کا اعلامیہ پیش کیا، کانفرنس کے اعلامیہ میں اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کے پس منظر میں دو الگ الگ ریاستوں کی بجائے صرف فلسطین کی ایک الگ ریاست کی بات کی گئی ہے جس کا کیپیٹل القدس الشریف بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ اے پی سی کا آغاز مولانا عبدالغفور حیدری کی جانب سے تلاوت کلام سے کیا گیا،اے پی سی کا انعقاد بہت اہم سیاسی واقعہ ہے،اگر چہ اس کا مقصد صرف اور صرف فلسطین عوام کی حمایت تھی تا ہم جب سیاسی قیادت ایک دوسرے سے ملتی ہے تو مقامی اور ملکی مسائل پر ضرور بات چیت ہوتی ہے اور سیاست دانوں کے درمیان رابطے قائم ہوتے ہیں، بتایا گیا ہے کہ صدر پاکستان اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ملاقات میں آئینی پیکج پر بھی بات ہوئی اور ملکی سیاسی صورتحال کو بہتر بنانے پر مشاورت ہوئی ۔ سیاسی قیادت نے ایک دوسرے کو اپنے نقطہ ء نظر سے آگاہ کیا ۔آل پارٹیز کانفرنس نے ملک کی صورتحال پر حوصلہ افزاء اثرات چھوڑے ہیں جس سے کشیدگی کے ماحول میں کمی آئے گی ،صدر مملکت آصف علی زرداری نے خطاب میں کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو فلسطین بالخصوص غزہ میں جاری اس قتل عام سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے اور ایسا کر کے وہ استثنی کے کلچر اور عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے عمل کو فروغ دے رہی ہے۔پاکستان اسرائیل کی بربریت کی مذمت کرتا ہے عالمی برادری صورتحال کو قابو کرنے کے لیے جلد اقدامات کرے، ہم نے وہ دن دیکھے ہیں جب بھٹو صاحب کے دور میں یہاں پی ایل او کے دفتر ہوا کرتے تھے اور یاسر عرفات آتے جاتے رہتے تھے، میںخود یاسر عرفات سے بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ملاقات کر چکا ہوں۔انہوں نے کہا کہ فلسطین اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے جس کے نتیجے میں 41 ہزار 800 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صحت اور تعلیم کے انفرا اسٹرکچر، عوامی املاک کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد اب اسرائیل نے اپنی اس سفاکانہ مہم میں مزید پیش قدمی کرتے ہوئے لبنان، شام اور یمن کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانہ شروع کردیا ہے۔آصف زرداری نے کہا کہ اپنے ان اقدامات سے اسرائیل نے خطے کی سیکیورٹی اور عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں اشتعال انگیزی میں اضافے پر شدید تشویش ہے اور وہ فلسطین اور لبنان کے خلاف اسرائیلی سفاکیت اور جارحیت کے ساتھ ساتھ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم فلسطین اور لبنان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور بہادر شہدا کے لیے دعاگو ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور خونریزی کے فوری خاتمہ کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و بربریت پر عالمی ضمیر جاگنا چاہئے، پاکستان کی حکومت بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنے اور فلسطین کے مسئلہ کے حل کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے ماہرین پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دے گی، پاکستان فلسطینی عوام کو انسانی ہمدردی امداد کی فراہمی میں مزید تیزی لائے گا اور فلسطینی طلباء کو پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے دیئے جائیں گے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ صدر کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت پر تمام رہنمائوں کا شکرگزار ہوں، پورے پاکستان سے سیاسی و مذہبی زعماء کا اجتماع اس بات کی گواہی ہے کہ جب بھی پاکستان کو کسی بھی چیلنج کا سامنا ہوا، چاہے وہ اندرونی یا بیرونی چیلنج ہو، پوری سیاسی اور مذہبی قیادت اکٹھے ہو کر یک زبان ہو گئی۔یہ اجتماعی سوچ اور فکر ہم سب کیلئے حوصلہ افزاء ہے،کہ عالم اسلام کو آگے بڑھنا چاہئے اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ قرارداد پاکستان اور قائداعظم کے افکار کے حوالہ سے بھی بات کی گئی آج ہمیں فلسطین کی آزادی کی بات کرنی چاہئے، القدس الشریف دارالحکومت کی حامل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالہ سے کانفرنس کے شرکاء میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ پوری پاکستانی قوم فلسطینیوں پر بدترین مظالم اور خونریزی کی مذمت کرتی ہے، فلسطینی بچوں اور خواتین کو شہید کیا جا رہا ہے، شہر بارود سے بھسم ہو گئے، بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں، وادی کشمیر میں معصوم کشمیریوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ سوڈان کی تقسیم، مشرقی تیمور کے معاملات طے کرنے کیلئے تو عالمی طاقتوں نے تمام حربے استعمال کئے، کیا مسلمانوں کا خون ان کے خون سے سستا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج عالمی ضمیر کو جاگنا ہو گا ۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے ہم سب کو اکٹھے ہو کر پالیسی بنانا پڑے گی ورنہ بچوں پر ظلم ہوتا دیکھتے رہیں گے ،فلسطین کے نہتے شہریوں پر جس طرح ظلم ڈھایا جا رہا ہے یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے، اسرائیلی جارحیت کے سامنے خاموشی اختیار کرنا انسانیت کی ناکامی ہے، بڑی بڑی عالمی قوتیں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، ان عالمی قوتوں کو بھی سوچنا چاہئے، اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر کے مسئلوں پر اگر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتا توایسے ادارے کا کیا فائدہ ہے۔ اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے ،عالم اسلام کو مل بیٹھ کر غزہ اور فلسطین کی صورتحال پر فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینیوں کا مقدمہ جس مؤثر انداز میں پیش کیا، قابل تحسین جذبہ ہے۔ انہوں نے کہا عوام کی دلی خواہش ہے اجلاس میں جوسفارشات مرتب کی جائیں اسلامی ممالک متحد ہو کر ان پر پورا اتریں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل ایک ناسور ہے اور اس کا فیصلہ 1947 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک جبری معاہدہ کے تحت کیا تھا ، فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی بستیوں کی تعمیر ناقابل قبول ہے۔ قائد اعظم نے خود اسے ناجائز بچہ کہا تھا ،انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان کی پالیسی واضح ہوئی تھی اور اسرائیل کے اس وقت کے صدر نے کہا تھا کہ ا سکے ملک کی پالیسی ہو گی ، کہ دنیا کے نقشے پر نئے اسلامی ملک کا خاتمہ مقصد ہوگا،انہوں نے کہا کہ پاکستان میںبعض مواقع پر اسرائیل کو تسلیم کرانے کی باتیں بھی ہوئیں۔ فلسطین میں دو ریاستوں کی بات کی جا رہی ہے ، جے یو ائی اس کو تسلیم نہیں کرتی ،ہم سارے فلسطین کو ایک ریاست دیکھنا چاہتے ہیں یہی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا تقاضا ہے ،جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین میں گزشتہ سال سے اب تک 85 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے جس کے نتیجے میں تقریباًً 80 سے 90 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور 10 ہزار افراد ملبے تلے دب چکے ہیں جبکہ 42 سے 43 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 30 ہزار بچے شامل ہیں۔
القدس کو فلسطین کی ریاست بنانے کا مطالبہ
Oct 09, 2024