پاکستانی ڈرامے کا بہت اعلیٰ مقام تھا، پاکستان کے فنکاروں کے ایسے شاندار انداز میں مختلف کردار نبھائے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ لوگ آج پاکستان کے بہترین ٹی وی ڈراموں کی مثالیں دیتے ہیں۔ اس زمانے میں نہ تو ڈرامہ کامیاب بنانے کے لیے، مختصر لباس کا سہارا لیا جاتا تھا، نہ ساس بہو کی لڑائی کے گرد ڈرامہ گھومتا تھا، نہ شادی شدہ خاتون کی کسی اور مرد میں دلچسپی کے گرد ڈرامہ چلایا جاتا تھا، نہ ہی بیٹے کو کسی لڑکی سے شادی کے لیے اپنے والدین کا نافرمان بنا کر پیش کیا جاتا تھا، نہ خاندان کے اندر مختلف رشتوں میں رنجشوں اور رقابت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے ناظرین کی توجہ حاصل کی جاتی تھی۔ اب تو لگتا ہے شادی بیاہ، طلاق، دوسری شادی، مرضی کے خلاف شادی، شادی ختم کر کے ایک اور شادی، شادی شدہ زندگی میں دونوں طرف سے کسی اور جگہ تعلقات عجب تماشہ لگا ہوا ہے۔
آج کل کے پاکستانی ڈرامے فحاشی، نفرت اور گھناؤنے مواد سے بھرے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر ڈراموں میں لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان بغل گیر ہونا عام ہو گیا ہے، جو ہمارے کلچر اور روایات کے بالکل خلاف ہے۔ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈز کے ناجائز تعلقات دکھائے جاتے ہیں۔ حیاء اور معاشرتی اصولوں کا تصور ختم کر دیا گیا ہے۔ ایک مشہور ڈرامے میں شوہر اور بیوی کو ایک ساتھ لیٹے ہوئے دکھایا گیا، جہاں بیوی کا سر شوہر کی چھاتی پر ہے، اور کچھ دنوں بعد لڑکی کو گائناکالوجسٹ کے پاس جاتے دکھایا گیا۔
اسی طرح کے سینز میں خواتین کو حاملہ دکھایا جاتا ہے، اور حاملہ ہونے کا عمل اور بچے کا اْبھار عام دکھایا جا رہا ہے۔ اسقاط حمل اور ناجائز بچوں کے موضوعات تقریباً ہر ڈرامے کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور یہ چیزیں معاشرے میں کیوں معمول بنائی جا رہی ہیں؟ ان ڈراموں کے ذریعے معاشرے کو بہتر بنانے کے بجائے، یہ ڈرامے ہماری روایات اور کلچر کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کوئی سنسر پالیسی موجود نہیں ہے۔
دوسری جانب، ایوارڈ شوز فحاشی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ٹیلیویژن چینل ایوارڈ شو میں بے حیائی کو فروغ دیتا ہے۔ جب ناظرین اداکاروں کو غیر مناسب لباس پہننے پر تنقید کرتے ہیں، تو وہ یہ کہہ کر دفاع کرتے ہیں کہ یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے، ہمیں تنقید کا نشانہ مت بنائیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کوئی چیز عوامی سطح پر کی جائے تو عوام کا ردعمل نارمل ہوتا ہے۔ اداکاروں کے درمیان ڈیٹنگ اور تعلقات کی خبریں بھی عام ہو چکی ہیں، اور وہ فخر سے یہ بات شیئر کرتے ہیں کہ ہم کئی سالوں سے تعلق میں ہیں، اور اب شادی کا فیصلہ کیا ہے۔ مغرب میں یہ چیزیں عام ہیں کیونکہ وہ ان کا کلچر ہے، لیکن ایک اسلامی ملک میں، جہاں معاشرہ ایسی چیزیں برداشت نہیں کر سکتا، وہاں کیسے یہ چیزیں دکھانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
ڈراموں میں ساس اور بہو کے زہریلے تعلقات بہت عام ہو چکے ہیں۔ بجائے اس کے کہ لوگوں کو ڈراموں کے ذریعے اچھائی سکھائی جائے، ڈائریکٹرز اور لکھاری ایسے موضوعات دکھا رہے ہیں جو رشتوں اور گھروں کو خراب کرنے کے نئے طریقے سکھاتے ہیں۔
ہر وہ شخص جس کی لمبی داڑھی ہو، اسے زہریلا، غصیلا اور قدامت پسند دکھایا جاتا ہے، اور ہر لڑکی جو حجاب پہنتی ہو، اسے غریب اور بے وقوف دکھایا جاتا ہے۔ یہ کون سا ایجنڈا ہے؟ کیا وہ معاشرے میں یہ تصور بٹھانا چاہتے ہیں کہ دین پر عمل کرنے والے لوگ زہریلے ہوتے ہیں؟ یہ یقیناً ایک ایجنڈا ہے، اور اسے اس نام سے پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ وہی کچھ دکھا رہے ہیں جو معاشرے میں ہو رہا ہے۔ لیکن معاشرے میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں جنہیں دکھایا جا سکتا ہے۔ ڈراموں کے بجٹ صرف ان چیزوں پر ضائع ہو رہے ہیں جو ہماری ثقافت اور معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں کوئی سنسر بورڈ ہوا کرتا تھا جو شاید کہیں دفن ہو چکا ہے یا اس سنسر بورڈ نے اپنی پالیسی بدل لی ہے، یا اسے روشن خیالی کے نام پر محدود کر دیا گیا ہے۔ وہ سب کچھ جو سنسر بورڈ فلموں میں دکھانے کی اجازت نہیں دیتا تھا وہ سب ٹیلیویژن ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے۔ کمرشلائزئشن ہونی چاہیے لیکن کیا پیسہ بنانے کے لیے اخلاقی قدروں کو پامال کر دینا چاہئے، کیا ہم اپنی روایات کو بھول جائیں، کیا ہم اپنی تہذیب کو نظر انداز کر دیں۔ پاکستانی ڈرامے تو پیار، محبت، عشقیہ داستانوں کے ادارے بنے نظر آتے ہیں جو ہر حال میں نوجوان نسل کو وقت سے پہلے ہی وہ سب کچھ سکھانا چاہتے ہیں جس کی عمر کو وہ ابھی پہنچے نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیا پاکستانی نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ صرف شادی ہے، یا شادی سے پہلے غیر شرعی تعلقات ہیں، یا شادی کے بعد غیر شرعی تعلقات ہیں۔ عجب صورت حال ہے۔ مطلب ہم بجٹ پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ہم بچوں کو اپنا مستقبل قرار دیتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ہم اپنا مستقبل کیا تیار کر رہے ہیں، جو ہم آج بچوں کو دے رہے ہیں وہی انہوں نے آنے والے کل میں ہمیں لوٹانا ہے۔ ہمیں کسی جگہ تو رکنا چاہیے، کہیں تو کوئی ریڈ لائن ہونی چاہیے، کہیں تو کوئی حدود و قیود ہونی چاہییں، کہیں تو کوئی معاشرتی اقدار کا خیال ہونا چاہیے۔ درست ہے کہ آج حکومت دیگر کاموں میں الجھی ہوئی ہے بہت مصروف ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب تو نہیں کہ دیگر شعبوں کو نظر انداز کر دیا جائے، سب مادر پدر آزاد ہوں، کسی کو کچھ خیال نہ رہے۔ متعلقہ وزارت کو اس معاملیمیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس حوالے سے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
آخر میں پیر سید نصیر الدین نصیر کا کلام
چھوڑ دو گے تم ہمیں دشمن کے بہکانے سے کیا
یوں تمہیں مل جائے گا'اپنوں کو تڑپانے سے کیا
لاکھ سمجھاؤ مگر ہوتا ہے سمجھانے سے کیا
ہوش کی باتیں کرو' الجھو گے دیوانوں سے کیا؟
آپ کی باتیں سنیں واعظ، مگر! مانیں نہیں
چوٹ کھاتا' آپ جیسے جانے پہچانے سے کیا؟
رقص کے عالم میں ہو جیسے یہ سارا میکدہ
آنکھ ساقی نے ملا رکھّی ہے پیمانے سے کیا؟
خیر' ہم نے مان لی جو بات بھی تم نہیں کہی
تم کہو' تم کو ملا جھوٹی قسم کھانے سے کیا؟
سامنے جب آ گئے کیسی حیا' کیسا حجاب
فائدہ اب مْنھ چھپانے اور شرمانے سے کیا
دیکھ زاہد! بادہ سر جوش کے چھینٹے نہ ہوں
تیرے دامن میں ہے یہ تسبیح کے دانے سے کیا
ترک الفت'اور پھرالفت بھی اس بے مثل کی
میں بہک جاؤں گا واعظ! تیرے بہکانے سے کیا؟
آگ اپنی میں جلا کر خاک کر ڈالا اْس
شمع! آخر دشمنی ایسی بھی پروانے سے کیا
چار سازو! کیوں دعا کرتے ہو' مر جانے بھی دو
بزم ہو جائے گی سْونی میرے اْٹھ جانے سے کیا؟
مے کشی لازم نہیں ہے بزم ساقی میں نصیر
کام جب آنکھوں سے چل جائے تو پیمانے سے کیا