سوڈان میں اپریل 2023ء سے مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان خانہ جنگی کی شدت کے ساتھ جنگ اور تباہی کی ہولناکیوں کے درمیان ’ہنگامی ایمرجنسی رومز‘ جنگ زدہ عوام کے لیے امید کی کرن کے طور پر ابھرے ہیں۔ لاکھوں سوڈانی لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے مشکل ترین لمحات میں مدد فراہم کرتے ہوئے یہ ایمرجنسی رومز انسانیت اور لچک کا نیا مجسمہ ہیں۔بڑھتے ہوئے تشدد کے درمیان ہنگامی کمروں کے کام صرف بحران کا جواب دینے تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ وہ ایک لائف لائن میں بدل گئے جنہوں نے لاکھوں بے گھر اور ضرورت مند لوگوں کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھایا۔ ان بہادر ٹیموں نے تنازعات والے علاقوں سے دسیوں ہزار افراد کو نکالا، صاف پانی اور طبی سامان فراہم کیا۔ اس کے علاوہ ان بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لیے کمیونٹی کچن بھی چلائے جو یقینی بھوک اور موت کے خطرے سے دوچار تھے۔ لیکن جو چیز ان کی کوششوں کو سب سے ممتاز کرتی ہے وہ جنسی تشدد کے رجحان کا ان کا دلیرانہ تصادم ہے جو تنازعات کے ساتھ ہوتا ہے۔تین اکتوبر 2024ء کو اوسلو میں پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے 2024ء کے نوبل امن انعام کے لیے سوڈانی ایمرجنسی رومز کی نامزدگی کا اعلان کیا۔ انہیں ایسے وقت میں "امید اور ثابت قدمی کی علامت" کے طور پر بیان کیا جب ملک شدید انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔بیان میں اشارہ کیا گیا کہ ان چیمبرز نے لاکھوں سوڈانی باشندوں کو بنیادی انسانی امداد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جس میں بے گھر ہونے والے اور انتہائی کمزور گروپوں کے لیے طبی دیکھ بھال بھی شامل ہے۔بیان میں رضاکاروں کی جانب سے دی جانے والی عظیم قربانیوں پر بھی زور دیا گیا ہے جو جنگ زدہ علاقوں میں مدد فراہم کرنے کے لیے روزانہ اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔ وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کی زندگیاں بچاتے ہیں۔ وہ قحط اور بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے اور شہری تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کی کاوشیں انسانی یکجہتی کی طاقت اور انسانی ہمدردی کے عمل کی اہمیت کی عکاسی کرتی ہیں۔انسٹی ٹیوٹ نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ان غیر معمولی کوششوں کو تسلیم کریں اور نوبل امن انعام کے لیے ہنگامی رومز کی نامزدگی کی حمایت کریں۔ انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ انہیں یہ ایوارڈ دینے سے انسانی ہمدردی کے جذبے میں اضافہ ہوگا اور موجودہ چیلنجوں کا سامنا کرنے میں سوڈانی عوام کی مدد ہوگی۔خیال رہے کہ سوڈان میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ایمرجنسی رومز قائم کیے گئے تھے۔ یہ اس وقت قائم کیےگئے جب زیادہ تر ہسپتالوں اور صحت کے مراکز نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ یہ ایمرجنسی رومز خوراک اور پانی فراہم کرنے کے علاوہ علاج اور دیکھ بھال فراہم کرنے، انخلاء کا انتظام کرنے کے لیے خصوصی طبی عملے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔خرطوم سے تعلق رکھنے والی 33 سالہ امل نے العربیہ ڈاٹ نیٹ اور الحدث ڈاٹ نیٹ کو اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ "جب بمباری شروع ہوئی تو میں ہسپتال کے آدھے راستے پر تھی، میں سوچ میں تھی کہ اب میں وہاں کیسے پہنچوں یا کہاں جاؤں؟۔ مجھے ایک ایمرجنسی کمرے میں لے جایا گیا۔انہوں نے کہا کہ "ایمرجنسی روم صرف دیواریں نہیں تھیں بلکہ وہ قلعے تھے جو زندگیوں کی حفاظت کرتے تھے کہ وہ جنگ کے گھپ اندھیرے میں نجات کی راہ ہموار کرتے تھے"۔45 سالہ محمود نے العربیہ ڈاٹ نیٹ اور الحدث ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ "جب جھڑپیں شروع ہوئیں تو ہمارا رابطہ بیرونی دنیا سےکٹ گیا۔ ہمیں اپنی جان کا خوف تھا۔ ایک مقامی ایمرجنسی روم کے بارے میں سنا کہ یہ ہمارے گھر کے قریب ہے۔ میں وہاں اپنی زخمی ماں کو پہنچانے میں کامیاب رہا، انہوں نے ابتدائی علاج اور دیکھ بھال سے اس کی جان بچائی۔انہوں نے مزید کہا کہ "گولوں کی آوازوں اور اس خوف کے سائے میں یہ ایمرجنسی رومز امید کی علاہیں‘‘۔جنوبی دارفور سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ سعاد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا: "لڑائی میں شدت آنے کے بعد ہم اپنے گاؤں سے فرار ہو گئے۔ ہم بغیر خوراک اور پانی کے لمبے عرصے تک چلتے رہے۔ آخر میں ہم ایک محفوظ مقام پر پہنچ گئے۔ وہ علاقہ جہاں ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم کے زیر انتظام ایک ہنگامی مرکز تھا جس نے ہمیں خوراک اور ادویات فراہم کیں اور عارضی پناہ گاہ تلاش کرنے میں ہماری مدد کی۔اس نے مزید کہا کہ "ایمرجنسی کمرے صرف علاج کروانے کی جگہ نہیں تھے بلکہ وہ جنگ کے اندھیرے میں روشنی کی کرن تھے۔ ہر زخم ایک کہانی لے کر جاتا ہے اور ہر صحت یابی ایک بہتر کل کا وعدہ رکھتی ہے"۔خرطوم سے تعلق رکھنے والی ھناء نےبتایا کہ "جب ہمارے سامنے دروازے بند ہو جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں میں ناقابل بیان طاقت پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اندھیرے کے لمحات میں بھی ہم اپنے ہاتھوں کے درمیان پھیلی ہوئی زندگی پاتے ہیں"۔وہ مزید کہتی ہیں کہ "یہاں تک کہ جب حالات ہمیں شکست دے دیتے ہیں اور ہم اندھیرے میں کھو جاتے ہیں۔ وہاں چھوٹی چھوٹی جگہیں ہیں، جیسے ہنگامی کمرے جو زندگی اور انسانیت کے ساتھ متحرک ہوتے ہیں‘